افغانیوں کی جانب سے 14 خودکش بم دھماکے؟ وزیر داخلہ اور حکام کا تفصیلات بتانے سے انکار

لاہور: نگران حکومتی اہلکار اپنے بار بار کیے جانے والے اس دعوے کی تائید کے لیے کسی بھی قسم کی معلومات ظاہر کرنے سے انکاری ہیں کہ رواں برس پاکستان میں ہونے والے 24 میں سے 14 خودکش دھماکوں میں افغان شہری ملوث تھے۔

3 اکتوبر کو نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے ایک ٹیلی ویژن پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ جنوری سے اکتوبر تک پاکستان میں 24 خودکش دھماکے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ’جنوری سے لے کر ابھی تک ہم پہ 24 سوسائیڈ بمبنگز ہوئی ہیں، ان 24میں سے 14 بمبنگز افغان نیشنلز نے کیے ہیں، افغانی لوگ تھے جنہوں نے ہم پر حملہ کیا ہے۔ اس میں پشاور مسجد کا بڑا واقعہ ہوا تھا۔ پولیس لائنز کا، وہ افغانی نے کیا، پھر اس کے بعد قلعہ سیف اللہ میں جو واقعہ ہوا مسلم باغ میں، اس میں سے 6 میں سے5 لوگ جو تھے وہ افغانی تھے’۔

سرفراز بگٹی نے مزید دعویٰ کیا کہ حکومت کے پاس تمام شواہد بھی موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ’ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں کہ وہ جس طریقے سے حملے کیے جاتے، سب کے ایوی ڈینسسز ہمارے پاس موجود ہیں’۔

وزیر داخلہ نے بین الاقوامی اور پاکستانی خبر رساں اداروں کو کئی انٹرویوز میں اس دعویٰ کو دہرایا ہے۔

ان مطلوبہ اعدادو شمار کو نگراn حکومت نے 1.73 ملین افغان شہریوں سمیت تمام غیر قانونی تارکین وطن کو ملک چھوڑنے یا جلاوطنی کا سامنا کرنے کا حکم دینے کے لیے استعمال کیا ہے۔

وزیر داخلہ نے گزشتہ ہفتے ڈان ٹی وی کو بتایا کہ اب تک 4 لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔

جیو فیکٹ چیک نےتفصیلات کے لیے پچھلے ماہ وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی سے رابطہ کیا, ان سے اس دعویٰ کی تصدیق کے لیے دستاویزات یا ثبوت کی درخواست کی، جس سے یہ بات ثابت ہو سکے کہ پاکستان میں 24 میں سے 14 خودکش حملے افغان مہاجرین یا شہریوں نے کیے تھے۔

انہیں 10، 13، 16، 24 نومبر اور پھر دوبارہ 5 دسمبر کو میسجز بھیجے گئے, انہوں نے ایک بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔

جیو فیکٹ چیک نے پھر وزارت داخلہ میں ڈائریکٹر جنرل میڈیا، قادر یار ٹوانہ سے رابطہ کیا اور ان معلومات کی درخواست کی۔

انہوں نے 24 نومبر کو متعلقہ معلومات فراہم کرنے کا وعدہ کیا جس کے بعد بار بار رابطہ کرنے کے باوجود ان کی طرف سے بھی کوئی جواب نہیں آیا۔

جیو فیکٹ چیک نےیکم اور 5 دسمبر کو سیکرٹری داخلہ آفتاب اکبر درانی سے دو مرتبہ رابطہ کیا، لیکن انہوں نے بھی کسی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

اضافی رپورٹنگ: فیاض حسین

اپنا تبصرہ بھیجیں