۔۔۔ گھوڑے، گدھے اور بھیڑیں ۔۔۔۔ تحریر ، عمران رشید

۔۔۔ گھوڑے، گدھے اور بھیڑیں ۔۔۔۔

پچھتر سالوں سے مختلف چَھڑیوں سے ہانکتی عوام ،آدم خور مہنگائی سے عاجز آ چکی ہے۔روح اور بدن کا رشتہ قائم رکھنا مشکل اور سانسوں کا تسلسل دن بدن بوجھل پن کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے۔
جسم نحیف تو روحیں لاغر و لا چار،ہمیں تو اب عالمی منڈیوں میں بھی کوئی ،کم دام میں خریدنے کو تیار نہیں۔
ملکِ عزیز میں ترازوؤں کی ساخت اور بناوٹ بھی کچھ ایسی ہے کہ وہاں تو ویسے ہی بے مول اور بے دام ہیں ۔
یہاں ترازو ،کم تولنے کے عادی اور حصول انصاف بھی کم یاب اور نایاب ہے۔
کیا قسمت پائی ہے ہم پاکستانیوں نے بھی ، عسکری قیادت،قانونی ادارے اور سیاست دانوں کے پسِ پردہ اعمال و افعال تو ہر دیکھتی آنکھ اور محسوس کرتے دل کے سامنے روشن ہو گئے ہیں۔
سول ادارے اور ان کے کرتا دھرتا خود کو فراعنہ اور نمرود کی باقیات سمجھے بیٹھے ہیں،چاہتے ہیں ان کی پرستش کی جائے اور ان کی چوکھٹ پہ سجدہ ریز نہیں تو کم از کم دوزانو رہا جائے۔
چند ہفتوں سے پکڑ دھکڑ اور اور کردار کشی کا وہ ہنگام برپا کیا ہوا ہے کہ اب تو ظلم بھی اپنے نئے مطالب سے آگاہ ہو رہا ہے۔
عوام کی خدمت سے شاکی افسر شاہی ،شہریوں کو ناکوں چنے چبوا رہی ہے،انسانوں کا جینا محال کر کے رکھ دیا گیا ہے۔
عیسوی شریعت میں تمثیلاً ، پیغمبرعیسیٰ کو بھیڑوں کےگلے کا نگہبان اور رہنما بتایا گیا ہے۔
اور جو گڈریا بنے اپنی بھیڑوں کی فلاح و بہبود کیلئے متفکر اور غمگین بھی رہتے تھے۔
آج کی مغربی ریاستیں ان کی پیروی میں اپنی رعایا کی دوست اور ہمدرد ہیں۔
ان کی معاشرت فلاحی اصولوں پر قائم ہے۔اپنی عوام کے خورونوش کے یہ ذمہ دار اور ان کی بقاء کے رکھوالے ہیں۔
اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے ان کو دوسرے ممالک پہ یلغار اور ان کو تخت و تاراج بھی کرنا پڑے تو یہ دریغ نہیں کرتے۔
دنیا کے وسائل یہ لوٹ رہے ہیں مگر اپنی مملکتوں میں انصاف کا اور اشیاء کا ترازو پورا رکھا ہوا ہے۔
پولیس اور سول ادارے عوام کے خادم اور رکھوالے ہوتے ہیں-
مجھے یاد ہے سن اٹھانوے کی بات ہے لندن کی اک بھیگی بھیگی سی شام تھی، میں گرین اسٹریٹ پہ کھڑا تھا،معاً ایک سیاہ فام میرے پاس سے بھاگتا ہوا گزرا،پیچھے پولیس کی گاڑی تھی۔تھوڑا آگے جا کر انہوں نے اسے دھر لیا۔اور دونوں ہاتھ پیچھے کس کے زمین پہ اوندھے منہ لٹا دیا۔
پاس سے گزرتی ایک بوڑھی گوری عورت پولیس والوں پہ سیخ پا ہونا شروع ہوگئی کہ اس کو زمین سے اوپر اٹھاؤ ،زمین گیلی ہے،بارش ہو رہی ہے اور یہ انسانیت نہیں،لوگوں کی تذلیل ہے۔
مجھے یاد ہے برطانوی پولیس خاموشی سے بڑھیا کا غصہ برداشت کرتی رہی۔
اس کا موزانہ اپنی پولیس سے کر کے دیکھ لیں؟
ان کا اخلاق اور ضبط دیکھ کر دل ویسے ہی پژمردہ خاطر ہو جاتا ہے۔
ہم جو مسلمان ہیں ،ہمیں حکم اور تلقین کی گئی تھی کہ اپنے گھوڑے تیار رکھیں۔
عربوں میں گھوڑے تین مقاصد کیلیے پالے جاتے تھے ۔ وہ کہا کرتے تھے ایک گھوڑا رحمان کیلیۓ ،ایک شیطان کیلیۓ اور ایک انسان کیلیۓ۔
رحمانی گھوڑوں سے مراد سامانِ حرب وضرب ،فوجی اور جنگی تیاریاں اور جدید فنونِ حرب میں کامل صلاحیت کا حامل ہونا لیا جاتا تھا۔
ہم اس میدان میں آج کے دور میں مغرب اور باقی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
بھیڑیں گھوڑوں پہ سبقت لے گئی ہیں۔
شیطانی گھوڑے ، عرب ان کو کہا کرتےجو جوئے ،ریس اور گھوڑ دوڑ میں شریک ہوا کرتے۔
اس میدان میں عرب خود باقی دنیا کی قیادت سنبھالے ہوۓ ہیں۔
گھوڑوں کی ریس اور اس پہ سٹہ بازی اور شرطیں باندھنا مسلمان عربوں کا آبائی اور قدیمی فن رہا ہے۔
ذاتی استعمال کے گھوڑوں میں ،سامان بار برداری اور سفر کی ضرورتیں ہوا کرتی تھیں۔
بدقسمتی سے یہ تیسری ضرورت پاکستان کے مقتدر طبقوں کو خوب سمجھ آ گئی انہوں نے ضروریات زندگی کیلۓ ایک دو گھوڑے نہیں رکھے۔
پورے کے پورے لشکر کے لیۓ درکار گھوڑے ،ایک ایک فرد اور خاندان نے اکھٹے کر لیۓ۔بلکہ خود ہی گھوڑے بن بیٹھے ۔
مگر باقی دنیا کی نظر میں یہ ناکارہ بیمار اور لنگڑے گھوڑے ہیں۔
دنیا کے میدانوں میں بھاگنے سے یہ قاصر اور عاجز ،اور صرف ایک ہی کام میں یکتا اور ماہر ہیں ۔
وہ ہے اپنے ہی ملک اور املاک کو تباہ کرنا اور اپنے ہی باغ اور چمن اجاڑ دینا۔
اب یہ بدمست اور فربہہ گھوڑے پورے ملک کے کھیت کھلیان اور میدانوں کو اپنے سموں سے روندتے جا رہے ہیں اور ان کے ٹاپوں کی بازگشت اور ان کے سواروں کی حرام کی کمائیوں اور نا اہلیوں کی داستانیں روز دنیا کے اخباروں میں چھپتی اور پردہ سکرین پہ دکھائی جاتی ہیں۔
قاعدہ ہے حرام کا مال مختلف صورتوں میں نکل جاتا ہے۔
جن میں اولاد اور اہل خانہ کی غلط راہیں اپنا لینا،
بیماریاں اور سکونِ دل غائب ہو جانا ،اور روح بوجھل مضمحل اور ضمیر مردہ ہو جانا۔
اب اس آئینے میں اپنے کرتا دھرتاؤں کا عکس آپ خود دیکھ لیں۔
ملک میں بہتری نہ آسکی ،
اب اک حافظ صاحب آئے ہیں ۔اِس کو اُس خاندان سے نسبت ہے جس کی خاطر مسلمان اپنا مال و متاع اور جان تک بھی لٹا دیتے ہیں۔
کیونکہ بنی نوع انسان کی رشدو ہدایت کیلیے اہل سادات خاص کر دیۓ گئے اور چن لیۓ گئے تھے۔

آگے آئیں ،اور قوم کو اس آنے ولے “مُنجی” کی یاد میں
اور پیشگی سُنّت کے طور پر،مہنگائی سے مرتے اور دم دیتے لوگوں کو ،دکھوں اور غموں سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
نجات دہندہ تو جب آئے گا تب آئے گا۔
ابھی تو اپنے حصے کا خیر بانٹتے جائیں۔
ابھی تو عدالتوں ،تھانوں اور دیگر سول اداروں میں سادہ لوح عوام کی خود اپنی مَنجی ہی ٹھوک دی جاتی ہے،جو جس کے فرائض ہیں وہ ادا کریں ۔
صرف ایک کام کر جائیں، چلے تو آپ نے بھی جا نا ہے،
مگر یاد اچھی اوربات محفوظ رہ جائے گی ۔پاکستانی تاریخ کے صفحے ،ذکرِ حافظ سے رنگین اور روشن رہ جائیں گے۔
ورنہ آپ کے پیش رو کی جو تاریخ اور تعریف اب ساری قوم بنا اور بتا رہی ہے۔وہ کاغذوں پہ لکھا سیاہ افسانہ اور کارنامہ بن کے رہ گیا ہے،اور بجز جگ ہنسائی کے کچھ نہیں۔
محافظوں کو قلعے کی فصیل تک محدود کر جائیں ،جو ان کا پیشہ ورانہ اور حلف یافتہ کام ہے۔
پاکستان کو اسلام ،خوشحالی ،ترقی اور انصاف کا قلعہ بنائیں اور اپنی تمام تر بدنی اور روحانی صلاحیتیں صرف اس کی حفاظت میں لگائیں۔
تنظیمی ،ریاستی ادروں میں مداخلت فی الفور بند کروائیں تا کہ پاکستان بھی ترقی کی شاہراہ پہ کم از کم قدم تو رکھے،
چلنا سیکھے گا تو دوڑنا بھی آ جائے گا۔
ورنہ انہی بھیڑوں کے آگے ہماری امت کے تخیلاتی گھوڑے جَوتے جاتے رہیں گے۔
اور یہ بھیڑیں دنیا میں یونہی دندناتی ،گھوڑوں کو اپنے انداز اور سمت میں بگٹٹ دوڑاتی رہیں گی۔

پتہ نہیں گھوڑوں کے ذکر سے شیراز کے حافظ شمس الدین شیرازی کا اک چھ سو سال پرانا کہا شعر ،ملکی حالت پہ افسردہ ہوتے ،
کیوں ذہن میں آگیا۔

“اسپ تازی شدہ مجروح بہ زیر پالان
طوق ذریں ھمہ بر گردن خر می بینم”

کہ اصل گھوڑے تو بوجھ تلے لدے اور دبے ہوئے ہیں ،جبکہ گدھوں کی گردنوں میں سونے کے طوق پڑے ہوئے ہیں۔۔


( تحریر ۔۔۔ عمران رشید )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں