۔۔۔۔ روشن چراغ اور ٹِمٹماتی آسیں ۔۔۔۔۔ تحریر ، عمران رشید

۔۔۔۔ روشن چراغ اور ٹِمٹماتی آسیں ۔۔۔۔۔

اللّٰہ تعالیٰ نے لوگوں کو مختلف طبائع پہ پیدا کیا ہے۰ایک ہی دسترخوان پہ ایک سا کھانا کھاتے جوان ہوتے بہن بھائیوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۰کوئی درشت گو تو کوئی نرم گو۔ایک اچھا تو دوسرا بُرا ،کوئی وفاکیش تو کوئی جفاکش۔ مگر معاشرے میں خاندان کا مجموعی تاثر ،ان سب کے مزاجوں کا مجموعہ اخلاق ہی ہوتا ہے۔
ایسے ہی معاشروں کا بھی اک خاص مزاج ہوتا ہے۰جزوی اور اکائیوں میں بٹے معاشرے میں سب کے اپنے اپنے مزاج اور پسندیدگیاں ہوتی ہیں۔
ایک طبقہ کسی سیاسی پارٹی کو پسند کر رہا ہوتا ہے تو دوسرا طبقہ کسی دوسری سیاسی پارٹی کو اپنی آرزؤں کا مرکز سمجھ رہا ہوتا ہے۔
مگر کبھی کبھار قدرت انہی لوگوں میں سے کوئی ایسا مردِ قلندر اٹھاتی ہے،جو سب کی آنکھ کا تارا بن جاتا ہے
خود ہی قافلہ،خود ہی راہرو،خود ہی رستہ اور خود ہی نشانِ منزل بن جاتا ہے۔
پھر اس تارے اور روشن چراغ کی روشنی کو ماند کرنے کیلیے دشمن اور مخالف جتنی مرضی دُھول اور خاک اڑائیں اور سازشوں اور شورشوں کی جتنی بھی تندو تیز آندھیاں اور ہوائیں چلائیں ،یہ چراغ نہیں بُجھتا۰
کیوں نہیں بجھتا یہ چراغ ، یہ مشکل سوال ہے اور جواب بھی کوئی ایک نہیں ،ہاں مگر گزرے وقتوں سے کچھ سیکھا ضرور جا سکتا ہے،کچھ ہمہ وقتی اسباق اور کچھ نتیجے ضرور اخذ کئے جا سکتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کو لے لیں ،آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے،نعروں میں تو زندہ ہے ہی۰حالانکہ بھری محفل میں روانی کلام میں کہہ دیا، پیتا ہوں مگر تھوڑی سی۔
اور پاکستان جیسے ملٌائیت زدہ ملک میں کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا،وجہ اس کا شروع میں مخلوق خدا سے اخلاص کا رشتہ تھا۔اگرچہ وہ تادیر قائم نہیں رہ سکا۔
لیڈی ڈیانا ،مدرٹریسا،عبدالستار ایدھی،لا ہور کے سر گنگا رام ،
یہ تمام لوگ خلق خدا کیلئے مظطرب ہوئے تو اللّٰہ نے انہیں دنیا میں وقتی دوام دے دیا۔
اگرچہ جیتے جی اعتراضات اور طعن و تشیع کی زد میں بھی رہے۔
باوجود اعتراضات کے لیڈی ڈیانا کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔
اسلامی تاریخ سے ایک بڑی مثال آپ کو بتاتا ہوں،جس سے چند لوگ ہی واقف ہوں گے۔
امام غزالی کو پاکستان میں ہر کوئی جانتا ہے، جبکہ ابن طولان کو کوئی نہیں جانتا۔
امام غزالی کی تصنیفات تہتر سے دو سو اور چار سو ستاون تک منسوب کی جاتی ہیں مگر علم میں ان کا مقابلہ کہیں بھی ابن طولان کی ساڑھے سات سو سے زائد تصنیفات سے نہیں ہوتا۔ابن طولان مصری مصنف تھے اور تبحرّ علمی میں کہیں آگے۔
غزالی کو ہر کوئی جانتا ہے اور ابن طولان کا آپ کو میں بتا رہا ہوں۔
وجہءِ گمنامی اور دوامی کیا ہے غزالی اپنے خدا است اور انسان دوست کام سے باقی رہ گئے۰
اور بڑا مصنف اور عالم ،تاریخ میں ڈھونڈے سے نہہں ملتا۔
کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اکثر عرب مفکر،اسلامی داعی اور اسلا می اسکالرز،
حریری اور بدیع الزمان سے کسی طور بہتر عربی دان نہ تھےاور نہ ویسی عربی لکھ سکتے تھے۔
مگر ان کا نام اور کام رہ گیا۔وجہ وہی الوہی کام اور مقاصد کا تسلسل اور اللّٰہ کی مہربانی اور نظر کرم۔
جب اللّٰہ تعالی کسی پہ مہربان ہو جاتا ہے تو لوگوں کے دلوں میں اس کیلیے محبت اور عقیدت کے جذبات موجزن کر دیتا ہے۔
بقول مرزا غالب۔
“سب کے دل میں ہے جگہ تیری، جو تُو راضی ہوا
مجھ پہ گویا اک زمانہ مہرباں ہو جائے گا”

ملک عزیز میں تحریک انصاف کے سربراہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ چل رہا ہے۔پلے بوائے تھا یا ساری زندگی اسکینڈلز کی زد میں رہا ،لوگوں کو کوئی پرواہ نہیں
لوگوں کے دل اس کی طرف پلٹ چکے ہوئے ہیں،ایسے میں کوئی اگر اس کے خلاف اٹھ رہا ہے تو وہ اپنے لیے خجالت اکھٹی کر رہا ہے۔وہ بھلے کوئی ادارہ ہو یا کوئی شاعر،فلسفی ،لکھاری یا کھلاڑی۰
ادیب ہو یا خطیب ،محافظ ہو یا حافظ۔
مخلوق خدا کے پسندیدہ اشخاص سے ٹکر نہیں لی جاسکتی،انجام کار اور حاصل رسوائی ہوتی ہے۔
لوگ یہ نہیں دیکھ رہے کہ عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں قوم سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے اور اپنے ارد گرد جا گیر زادوں اور زمین داروں کا وہی ٹولہ اکٹھا کر رکھا ہے،جو موقع پرست اور طوطا چشم ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بڑے پہلے یونینسٹ پارٹی میں تھے اور قائد اعظم کے مخالف۔ پاکستان بنتا نظر آنے لگا اور کوئی رستہ نہ رہا تو مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔
اب تحریک انصاف کی لہر اٹھی ہے تو قافلہ در قافلہ اس میں شامل ہو چکے ہیں۔
نہ کسی کا احتساب ہوا ،نہ یکساں نظام تعلیم رائج ہو سکا۔
لوگوں کی محبت سمیٹی ہے تو لوگوں کی جائز تنقید بھی برداشت کرنا ہو گی۔
کرنے کے جو کام ہیں وہ کریں۔
پہلے تو کوئی سادہ سا عوام فہم دس پندرہ نکاتی منشور لوگوں کو زبانی یاد کروادیں۔پھر اپنی دی ہوئی زبان پہ پہرہ بھی دیں۔
احتساب ہو سب کا،زندگی کے تمام نمایاں شعبہ جات سے ، جس میں افواج،عدلیہ، اور سول بیوروکریسی سب سے پہلے ہوں۔
زرعی اصطلاحات ضرور بتائیں اور اگر موقع ملتا ہے تو اس کو نافذ بھی لازماً کروائیں تاکہ قوم کو مدنی مساوات کا ہلکا سا نمونہ تو نظر آئے۔
اور آپ کی ریاست مدینہ میں محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئیں۔
یکساں نصاب پورے ملک میں پڑھایا جائے تو غرباء کے بچے بھی ہر گوشہ زندگی میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کارلا سکیں گے۔
معیشت ٹھیک ہو جائے گی جب لوگوں کو انصاف ملنا شروع ہو جائے گا۔
زیادہ نہیں مگر لوگ اس ملک میں اپنے بچوں کے رزق کے متمنی ہیں۔اور یہ جائز اور بنیادی خواہشیں اور آسیں ہیں۔
سیاسی طور پہ اگر جماعت اسلامی کے ساتھ الحاق کر لیں تو کئی فوائد حاصل ہو جائیں گے۔
جماعت اسلامی پاکستان کی واحد جماعت ہے جس میں سید مودودی انتخابات کا شفاف سسٹم بھی بنا گئے اور اسلامی شورائیت کا نمونہ بھی سکھا گئے
یہ کچھ کام کر لیں ۔
دھرنوں اور جلسوں کی سیاست سے لوگوں کے روزگار کو اور تنگ نہ کریں ۰
رب کی نظر کرم پھر گئی تو یہ قوم ،
جو اب ہم آہنگ ہے اور آپ کے سنگ ہے.
سنگ باری اور سنگ ریزی کی بھی ماہر ہے۰

اور جو چراغ آندھیوں سے نہیں بجھتا،وہ لوگوں کی پھونکوں سے بجھ جایا کرتا ہے۔


( تحریر ۔۔۔ عمران رشید )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں