موت کی دستک

موت کی دستک

صبح کے دامن میں اجالے ہیں یا پرہول تاریکیاں۔رات کی آغوش میں استراحت اور طمانیت ہے یا ان دیکھے،چھپے ہوئے صدمات۔دن وہی ہوتے ہیں۔کسی کے لئے ملن کی خوشی تو کسی کے لئے جدائی کا صدمہ ,ان میں سے بھی بعض صدمے دائمی بن جاتے ہیں۔
دل کی کیفیات احساسات سےبدلتی ہیں ۔دکھ کا احساس دلِ رنجیدہ کو رنجیدہ تر اور خوشی کا احساس مژدہ جانفزا بن جاتا ہے۔جارجین سال کی ابتدا ہی افسردگی سے ہوئی ،کچھ دنوں سے طبیعت میں بے کلی اور بے چینی سی تھی۔یکے بعد دیگرے کچھ واقعات ہوئے تو دل بھی ٹھہر سا گیا۔کچھ تو ایسے بھی سرد موسم اپنے اندر اداسی اور یاسیت کا مزاج رکھتا ہے۔اور یہاں ویسے ہی سردیوں میں درجہ حرارت منفی رہتا ہے،جو طبیعت کی سر خوشی اور مستی کی نفی کرتا رہتا ہے۔
ہفتہ کے دن نیند سے بیدار ہوا تو بڑے بھائی اے آر بابر کا واٹس ایپ پہ پیغام موجود پایا اطلاع چار افراد کے داغ مفارقت کی تھی۔
انسانی حیات بھی عجب پراسرار چھوٹی سی کہانی ہوتی ہے،کہنے کو طویل مگر گزر جانے میں قلیل ۔کہتے ہیں روز محشر انسان کہیں گے کہ ہم تو دنیا میں بس ایک آدھا دن گزار کے آئے ہیں ۔دوسری حدیث میں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا ۔ “میری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر سال کے درمیان ہوں گی اور تھوڑے لوگ اس حد سے آگے بڑھیں گے”
بچپن ماں باپ کے سائے میں گزر جاتا ہے۔جوانی آئی کب اور گئی کہاں،پتہ نہیں چلتا۔اور بڑھاپا طوالت اختیار کر جاتا ہے،انہی ساٹھ ستر سال میں انسان اپنے حصے کی کامیابیاں ،نا کا میاں خوشیاں اور غم ،بے چینیاں،بے قراریاں ،آسودہ خواہشیں،نا تمام آرزوئیں،حسرتیں،محرومیاں ،رسوائیاں اور نیک نامیاں سمیٹ کر دوسری دنیا کا مسافر ہو جاتا ہے۔
حسن نصیر سندھو سے پچھلے سال گھر پہ ملاقات ہوئی، والدہ کی قبر پہ پاکستان گیا ہوا تھا۔دو ماہ پہلے حسن امریکا کی ایلونائز یونیورسٹی میں اپنا ڈاکٹر یٹ کا مقالہ پیش کرنے آئے ہوئے تھے،تو غالب امکان تھا امریکا یا کینیڈا میں ان سے ملاقات ہوتی ۔مگر کاتب تقدیر کو کچھ اور منظور تھا۔اپنے والد کی وفات پہ پاکستان روانہ ہوگئے ۔ذکاءاللہ میرے ہائی سکول کے دوست ہیں ان کے سسر بھی وفات پا گئے ،اولاد نرینہ نہ تھی،ذکاءاللہ سے ہی تعزیت کر لی۔
تیسرے صاحب ،بڑے بھائی کے دوست وسیم بھی اللہ کے حضور حاضر ہو گئے ۔
اور آخری شخصیت میرے والد گرامی بھاءجی رشید مرحوم کے عزیز ترین دوست اور میرے استاد محترم جناب عبدالعزیز نادر صاحب کی تھی.
ان سے والدِ گرامی کا تعلق نصف صدی پہ محیط اور خود میری شناسائی رُبعہ صدی پہ مشتمل تھی۔
جنابِ نادر واقعتاً جنسِ نادر اور کم یاب انسان تھے۔
درویش خصلت،متقی اور پر ہیز گار انسان.ایسے لوگ اور باقی ہی کتنے تھے،جو یہ بھی زمین کے سینے میں سما گئے۔حیاء اور عجز سے ہر دم جھکی آنکھیں،دورانِ گفتگو کبھی کبھار اچانک قلندرانہ قہقہ بھی بلند کر دیتے۔پچیس سالوں میں ان کی سیاہ داڑھی کو سفید ہوتے خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا.لیکن ان کی وضع داری میں رتّی برابر فرق نہ محسوس کر پایا۔
چلچلاتی دھوپ ہو یا جاڑے کی سخت سردی،والد صاحب کا معمول تھا،ہر اتوار کے روز کسی نہ کسی کو ملنے چل پڑتے.اکثر مجھے آواز دے دیتے میں ساتھ لے جاتا۔
شہر کے جس حصے میں قیامِ نادر تھا ،ادھر دو تین ملاقاتیں ہوتیں تو پہلا پڑاؤ سر نادر کی طرف ہی ہوتا۔دونوں مر حومین ایک دوسرے سے ہلکی پھلکی چہلیں اور چو ٹیں کرتے،اور زیادہ تر گھریلو معاشیات زیرِ گفتگو رہتی۔عبدالقدوس ان کے بڑے بیٹے ہیں اور میرے ہم جماعت ،ہمارا اپنا بھی پینتیس سال پرانا تعلق ہے۔خاطر مدارت اکثر عبد القدوس کے ذمے رہتی۔ہم دونوں بھی اپنی پسندِ طبع بات چیت کر لیتے۔
نو سال کینیڈا میں ہو گئے۔جب کبھی سر نادر کو کال کرتا تو والد صاحب کی مغفرت کیلئے دعا کا کہتا،ایک دن فرمانے لگے،میرا معمول ہے اہلیہ کی وفات دو ہزار سات کے بعد سے روانہ نمازِ فجر کے بعد تمام مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہوں۔اور بھاءجی کے لئیے خصوصاََ ان کا نام لے کر کرتا ہوں اور ان کی رحلت سے اب تک کبھی ناغہ نہیں ہوا۔میں چپ کر گیا اور ان کی عظمت اور پاکیزگی کی لہر میرے دل کے نہاں خانوں میں اتر گئی۔درویش آدمی تھے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ابھی تحریر مکمل نہیں کی تھی کہ ثناء اللہ کا لندن سے فون آگیا،ثناءاللہ بھی میرے ہم جماعت اور میرے قیامِ لندن کے ساتھی بھی ہیں۔ان کے چھوٹے بھائی پانچ ماہ موت و حیات کی کشمکش کے بعد مالک دو جہاں سے جا ملے۔
اس عمر تک آتے آتے کئی لوگ قافلہ چھوڑ گئے،ان میں کئی ایسے تھے جو جوازِ رونقِ زندگی تھے۔
کیا لکھوں اور کیونکر لکھوں،مجھ سے کسی سے تعزیت نہیں ہو پاتی،ما سوائے شرعی الفاظ بول دینے سے،اور دعائے مغفرت کر دینے سے۔
موت کی تانک جھانک تو ازل سے جاری ہے،اور موت کو تو دستک کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی،اس کو تو ہمیشہ تمام دروازے کھلے ہی ملتے ہیں۔
کسی کے ماں باپ،بہن بھائی اور اولاد کے گزر جانے پر پُرسہ کیسا،شائد ڈرتا ہوں ۔
بقولِ حالی۔

“قلق اور دل میں سوا ہو گیا

دلاسہ تمہارا بلا ہو گیا”

اپنا تبصرہ بھیجیں