۔۔۔۔۔۔۔معاشرہ،معیشت اور مہنگائی۔۔۔۔۔۔۔

شب و روز کا تغّیر ہے۔فاصلے بھی زیادہ ہیں۔دو تین دفعہ پاکستان سے منظر سعید گوہر نے یاد کیا،مگر بات نہ ہو سکی۔منظر پنجاب پولیس کے افسر اور گوجرانولہ میں اک برانچ کے سربراہ ہیں۔
دیندار،پابندِ شریعت اور شاعر باپ کے سعادت مند لختِ جگر ہیں ۔اور خود بھی علمی وادبی ذوق وشوق رکھتے ہیں۔اِن سے اک خاص تعلقِّ خاطر ہے،بڑے بھائی سا احترام کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ کبھی کوئی سائل تھانہ کلچر سے متعلقہ کوئی کام کہدے تو بے دھڑک ان کے گوش گزار کر دیتا ہوں،اپنی حتی المقدور کوشش سےکام کی تکمیل تک اپنی پوری توانائیاں اور صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں۔بخوبی جانتا ہوں جائز سفارش تعلقات کا سماجی انفاق ہے۔
بے ترتیب اور بے ربط گفتگو کا لب لباب مہنگائی رہی۔کہا کچھ تبصرہ؟
عرض کی،کیا کہوں؟میں تو پیشہ ور لکھاری نہیں۔
بچوں کے رزق کی تلاش میں دن کو رات اور رات کو دن کئے ہوئے ہوں۔اور کوشش مالِ حلال کی ہو تو مشقت اور بڑھ جاتی ہے۔
ایک ولی اللہ کا قول ہے،حلال رزق کمانا ایسے ہی ہے جیسے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے اٹھا کر کسی دوسری جگہ پہ رکھ دینا۔اور اس پہ مستزاد پوری دنیا میں روز افزوں بڑھتی ہوئی مہنگائی۔
ایسے میں لکھنا کیا؟طاقتِ گفتار تک سلب ہو جاتی ہے۔

“چُناں قحط سالی شد اندر دمشق

کہ یاراں فراموش کر دند عشق”

مہنگائی کو کسی اور رنگ سے دیکھتے ہیں!جملہ اخلاقی اسباق اور روحانیت کے درجات کا تعیّن کئے بغیر آپ معیشت کی کوئی جامع تعریف نہیں کر سکتے۔معیشت دین کے دائرے میں رہے یا لادینیت کے زیرِ اثر،اس کی تشریح کے لئیے آپ کو معاشرے کی مجموعی ہیت کا جائزہ لینا ہی پڑے گا۔لیکن کیا کیجئے زیادہ تر اخبارات اور چینلز پر پیش کردہ مواد گورکھ دھندہ اور چیستان ہی تو ہے ،شماریات کی گنجلک باتیں،علمی اور عقلی تبصرے اور حقیقی روح عنقا-
معاشیات ہے کیا؟
معاشیات یا اقتصادیات میانہ روی کا نام ہے۔اس کی فانی ،لا فانی ،الہامی اور غیر الہامی تعریفیں کی گئی ہیں۔
ایڈم سمتھ کہتا ہے-“معاشیات دولت کا علم ہے۔”
کینیز کے بقول۔”ایسا علم اور نظام کا مطالعہ ہے ،جس کے تحت معاشرے کے افراد اپنے محدود مادی وسائل سے خوشحال زندگی گزارنے اور اپنی حاجات کی برآوری کےلئے انفرادی اور اور اجتماعی کوششیں کرتے ہیں۔”
عالمی شہرت یافتہ مسلمان مفکر ابنِ خلدون کا کہنا ہے۔
“رزق ڈھونڈنے اور اس کے حصول کیلئے جدو جہد کا نام ہے”

ابتر ہوتےمعاشی حالات صرف پاکستان میں نہیں
ورلڈ بینک کا کہنا ہے دنیا میں غربت اتنی زیادہ ہے کہ تقریبا دس فیصد آبادی کے پاس گزر بسر کے لیے روزانہ کے دو ڈالر بھی میسر نہیں۔امریکہ کو آپ امیر ملک سمجھتے ہیں،یہاں تقریباً ساڑھے تین کروڑ لوگ غریب گنے جاتے ہیں،اور پچھلے تیرہ سال کی ریکارڈ مہنگائی ہے۔
کینیڈا میں فوڈ بینک 1980 میں قائم ہوئے اور شماریات کینیڈا کہتی ہے 2006 کی کساد بازاری کے بعد اب تک بیس فیصد خاندان اس سے متاثر چلے آرہے ہیں۔
عالمی ادارے یونیپ کے مطابق دنیا کا 14 فیصد کھانا ضائع ہو جاتا ہے اور چالیس فیصد اناج انسانوں تک پہنچنے سے پہلے ہی سبزی منڈیوں میں خراب ہو جاتا ہے۔
اس میں ربّی رزاقیت مبرّائے انسانی شکایت ہے۔
یہ تو کچھ مادی باتیں ہو گئیں۔
دیکھنا یہ ہے اسلامی نظام معیشت میں اس کے اساسی تصوّرات کیا ہیں؟
اس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت سب سے پہلے ہے۔پھر انسان زمین پر اس کا نائب بتایا گیا ہے،اور رزق منجانب اللہ ہے ۔اور تصوّر آخرت کے ساتھ کسب معاش کو منسلک کر کے حلال و حرام کی تفریق کر دی گئی ہے ۔
معاشیات کا اک اصول یہ بھی ہے کہ جب کسی قوم میں اخلاقی زوال ہو تو مہنگائی کو عروج ملتا ہے۔
عمومی معاشرتی اخلاق،معیشت اور مہنگائی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
ھم باطل طریقوں سے لوگوں کا مال کھاتے رہیں،یتیموں اور مساکین کا اثاثہ بھی ہڑپ کرتے رہیں۔
کم تولیں،رشوت ستانی،خیانت،ملاوٹ،دھوکا دہی،دھونس دھاندلی کو معاشرے کا عام چلن بنا دیں۔چوری اور ذخیرہ اندوزی سے باز نہ آئیں۔صلہ رحمی،حسن سلوک،صدقات و خیرات سے منہ موڑ لیں اور سودی نظام کا آلہ کار بنے رہیں۔حد یہ ہے کہ مکہ اور مدینہ کے والی آپ کو سود پہ اربوں روپے ادھار دیں اور آپ اس سے معیشت کا پہیہ چلائیں اور امید رکھیں فضلِ خدا کی؟
ایسے میں کیا آسمان سے ھن برسے گا؟یا رب تعالیٰ من و سلویٰ اتارے گا۔
نہیں! غضبِ الٰہی کو دعوت اور قہرِ خداوندی کو بلاوا ہے۔
اس میں کوئی شک و شبہے کی بات نہیں قبلہ وزیراعظم ایک دیانتدار آدمی ہیں،پر آپ خلافت کا بوجھ اٹھا چکے،بھاری پتھر ہے تو چوم کے چھوڑ دیں۔
یہ عذرِ لنگ ہے کہ پورا نظام بگڑا ہوا ہے۔
کریں احتساب سب کا،سیاستدان کیا،عدلیہ کے منصف اور سالار کیا۔
دونوں بڑی پارٹیوں کے عمائدین اور ان کے ہزاروں ھمراہی ویسے ہی دندناتے گھومتے زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔اور نانِ جویں کو ترستی اللہ تعالیٰ کی مخلوق،بھوک اور افلاس سے بلکتے بچے،مفلوک الحالی سے تنگ آئی بوڑھی،خشک اور افسردہ آنکھیں،اپنی عفتوں اور عصمتوں کو اپنی تنگ دامن چادروں سے ڈھانپے خستہ حال خواتین آپ کے وزارتی محل کی وزنی اور آہنی زنجیر کو تھامے فریاد کناں ہیں۔
مگر آپ تسبیحات کے پھیروں میں مگن،تصوف کی وادیوں میں غرق ہیں۔
مناجات سے دن پھرتے تو امریکہ کا افغانستان میں قیام بیس سال کی طوالت نہ اختیار کرتا۔
ریاست مدینہ کی آپ اکثر مثال دیتے ہیں۔
اسی شہر کے فاروق اعظم کا قول ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو عمر اس کا زمہ دار ہو گا۔
انہی عمر ابنِ خطاب نے عیاض بن غنم کو لوگوں کی شکایات پر عامل مصر کے منصب سے معزول کر کے بکریاں چرانے پہ لگا دیا اور عمری صدا دی کہ جب لوگوں کی شکایات دور نہیں کر سکتے تو بکریوں کے ریوڑ چرایا کرو۔
فاروقِ اعظم کو بھی رہنے دیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اوپر کس کی بات ہوگی؟
حضرت ابو زر غفاری کے کے عہدہ طلب کرنے پہ آپ نے منع فرما دیا کہ یہ آپ کو موزوں نہیں۔
کیا بہتر ہوتا اگر آپ ان لٹیروں کو پا بہ زنجیرِ عدل کر پاتے ۔
زندگی حرکتِ عمل کا نام ہے،اور معاشرے عدل کے دم سے سانس لیتے ہیں۔
مراعات یافتہ طبقوں کی من مانیاں اور لوٹ مار دیکھ کے دم گھٹتا ہے۔سیاستدانوں کے حامیوں،جن میں عوام کیا،علماء کیا اور لکھاری کیا،ان کی بدقماش راہنماؤں کے لیے بے باکانہ حمایت دیکھ کر معاشرے کی روش سے دل اُچاٹ ہو جاتا ہے
اب تو اپنے معاشرے کی عمومی سلیم الطبعی اور شریف النفسی کا ذکر بھی بارِ جاں لگتا ہے۔
دکھ ہے تو اس بات کا کہ صدیوں کے ان گنت بہیمانہ طلسم اور اس میں گرفتار سادہ لوح غریب لوگ آج بھی حالات کے جبر میں پس رہے ہیں۔

“تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

تحریر: عمران رشید

ہیں تلخ بہت بندہ ِٔ مزدور کے اوقات”

اپنا تبصرہ بھیجیں