گلابی چلبلا، تحریر: حسن نصیر سندھو

ہمارے بڑوں کا یا ان کے بڑوں کا زمانہ رہا ہوگا، جب دل صرف کسی ایک سے لگانا ہی اور اسے پانا یا اس کے پیار میں پاگل ہو کر مر جانا ہی اصل مرتبہ محبت جانا چاہتا تھا۔ وقت بدلا، صدی بدلی، سوچ بدلی اتنا کہہ کر گلابی چلبلا بھائی نے پان ٹھوکا اور میری طرف دیکھ کر بولے۔ ہماری عمر چھوٹی ضرور ہے پر اپنی عمر کی تعداد سے دوگنا زیادہ پیار کر لیے۔ میں نے مرعوب ہو کر عمر پوچھی تو فرمایا 25 سال۔

پچاس محبتیں؟ کہتے نہیں ساڑھے پچاس محبتیں۔ لیکن یہ ساڑھے پچاس والا آخر میں بتاؤں گا۔ میں نے تعظیما سر کو اثبات میں ہلا دیا۔ پوچھتے ہیں، محبت بانٹنے والا جذبہ ہے یا فرد واحد کے نام کرنے والا جذبہ۔؟ میں نے اپنی دانش کے مطابق جواب دیا، جی بانٹنے والا۔ اپنی ٹانگ پر ہاتھ مار کے کہتے۔ دیکھا!!! ہمارے بڑے کتنے بے وقوف تھے. جو محبت کو قسمت کا کھیل سمجھتے تھے. ہم تو ذندگی کو چار دن کی زندگانی سمجھتے ہیں۔ تارے ملیں نہ ملیں، واٹس ایپ نمبر کوہی اصل گیم اب سمجھتے ہیں۔

پہلا عشق تو اپنی سکول ٹیچر سے تب ہی ہو گیا تھا۔ جب اس نے میرا ٹیفن میں سے نگٹ نکال کر اپنے ہاتھ سے میرے منہ میں ڈالا۔ اس دن سے جس کلاس میں ٹیچر جاتیں انکے پچھے میں جاتا۔ یہ تو بھلا ہو چاندنی کا، جس نے مجھے دو جمع دو برابر چار سمجھایا۔ تو اسی وقت پہلے عشق کے سحر سے نکل کر پہلی کلاس میں دوسرے عشق کے امتحان میں سوار ہو گئے۔ پھر راہ چلتے،ہائے اس لڑکی کا بہار کی چمکتی دھوپ میں قہقہ ہمیں دن میں ہیں تارے دکھا گیا۔ اور باؤلی عمر میں اس آنٹی کی محبت کا کیا کہنا، میں آج بھی انکی سچائی کا قائل ہوں۔ کہ انہوں نے پوری سچائی کے ساتھ آؤ دیکھا نہ تاؤ دیکھا، سیدھا ہمیں کہہ دیا کہ تم لنگور سے دکھتے ہو۔ اس موقع پر ہماری دبی دبی ہنسی نکلی۔ گلابی چلبلا بھائی نے پان کی پیک پھینکی، اور ہم سے پوچھا؛ آپ کو محبت کا کیا پتا؟

میں نے افسوس سے اپنی کم علمی کا اظہار کیا اور جان خلاصی پائی۔ مجھ پر گہری نظر ڈالتے ہوئے کہتے، کالج کی محبت کا اپنا مزہ کلاسیں بنک کرنا، پارک جانا، چہل قدمی کرنا، بڑے بڑے دعوے کرنے، حق آہ، پراس دور میں امیر لڑکی کے ساتھ فور سٹار ہوٹل میں ہائی ٹی کے مزے نے محبت کا رخ بدلا اور ہم نے اپنا ہئیر سٹائل بھی بدلا۔ پھر موبائل آیا، روز ایک نیا نمبر آیا، روز محبت کے ساتھ ایک چہرہ بھی بدلا۔

سائیکل بائیک سے بدلا، بائیک گاڑی سے بدلی، محبت اس کی سہیلی سے بدلی۔ غالباً محبت ایک سمندر ہے ہر نئے غوطہ پر، نئی محبت سے آشکار ہوئے۔ ڈوبے اور پھر نئی محبت کے لیے ابھرے۔ اس گلی کی بیوہ کی ڈری ڈری محبت سے لے کر، ہاسپٹل کی چوخ چنچل محبت تک، محبت کا ہر رنگ نرالا دیکھا۔ آنکھ میں جو کاجل لگاتی تھی، اور پاؤں میں جو پائل پہنتی تھی، آنچل اوڑھے جو کمال لگتی تھی، بارش میں بھیگتی جو چراغ لگتی تھی۔ سب محبتوں میں با کمال لگتی تھیں۔ اس طرح پچاس محبتوں کا سفر تمام ہوا۔

میں نے ڈرتے ڈرتے ساڑھے پچاسویں محبت کا ذکر کیا، تو آنکھوں میں آنسو آگئے، ہاتھ کپکپائے، رنگ پیلا پھٹک پر گیا، سانس رک سی گئی، میں ڈر گیا کہ کہیں اس محبت کا انتقال تو نہیں ہو چکا؟ ماتم کا سا ساماں بندھ گیا۔ وہاں بیٹھے ہر شخص کی آنکھ اشکبار ہو گئی۔ میں نے بڑھ کر سینے سے لگا کر تسلی دی۔ تو مجھے پرے ہٹھاتے ہوئے چلبلا بھائی نے بتایا وہ مری نہیں بھائی۔ بلکہ ہماری ان سے شادی ہو گئی اور یہ آنسو محبت ملنے کے نہیں، بلکہ شادی کے بعد جو طعنے ملتے ہیں، ان کے ہیں۔ چلبلا بھائی کی حالت دیکھ کر میرے منہ سے دبی دبی آواز میں نکلا؛ ہائے یہ محبت! جسے ملی وہ بھی پچھتایا، جسے نہ ملی وہ بھی پچھتایا۔
______________________________________
حسن نصیر سندھو گفٹ یونیورسٹی سے بطور وزیٹنگ لیکچرار وابستہ ہیں اور یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں