حراست میں ہلاکت، تحریر: اے آر بابر

پولیس اسٹیشن ایک ایسی عمارت کو کہا جاتا ہے جہاں جرائم کے خاتمے اور عوامی تحفظ کی خاطر افسران اور دیگر اہلکار حکومتی سرپرستی میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر معاشرے میں امن وسکون برقرار رکھنے کے ضامن ہوتے ہیں ۔ مہذب معاشروں میں ہسپتال اور تھانے ،دکھی انسانوں کے لئے جائے پناہ کی سی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جہاں مختلف پریشانیوں میں مبتلا افراد اپنے دکھ درد کے خاتمے کی امید لئیے حاضری دیتے ہیں ۔ وہاں خوشی سے کوئی نہیں جاتا ۔ مصائب سے نبردآزما افراد کی دل جوئی اور ان کی سلامتی کے لئیے مزکورہ دونوں شعبوں کے ماہرین اپنی خدمات بجا لانے میں اپنی توانائیاں صرف کرتے ہیں۔ یہی ان ماہرین کی ترجیحِ اول ہوتی ہے اور انکی روزی روٹی کے حلال ہونے کی علامت بھی ۔مگر ترقی پزیر ممالک میں حالات یکسر مختلف ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں تو جو ہوتا ہے وہ الگ سے ایک ایسا موضوع ہے کہ جس پہ کالم نہیں پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے ۔ مگر عام طور پر تھانوں میں جس طرح انسانیت کی تذلیل کی جاتی ہے اسے سن کر رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔معاشرتی اونچ نیچ اور معاشی تفاوت کے مارے بےشمار مظلوم افراد صرف اس وجہ سے تھانوں کا رخ نہیں کرتے کہ انہیں وہاں سے خاطر خواہ بھلائی کی قطعاً امید نہیں ہوتی ۔ گو ہر جگہ ایک جیسی صورتحال بالکل بھی نہیں ہے ۔ رزق حلال کمانے والے اور اللّٰہ کریم کے حضور ایک دن پیش ہونا ہے ، یہ سوچ رکھنے والے پولیس اہلکار بلا تخصیص افسران و جوان ، محکمے کے تقدس کو بحال رکھنے میں کسی حد تک کامیاب بھی کہلائے جا سکتے ہیں ۔ مگر مجموعی صورتحال دگرگوں اور ابتر ہے ۔ وہی گوروں کے بنائے ہوئے کالے قوانین ابھی تک کارفرما ہیں جن کو انگریز حاکموں نے اپنی ترجیحات کے تناظر میں صرف اس لئیے ترتیب دیا تھا کہ عوام محکوم ہی رہیں۔ عوام پہ مسلط روائیتی سیاستدانوں نے پولیس اور اس سے متعلقہ قوائد و ضوابط کو مہذب معاشروں میں رائج قوانین کے مطابق کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا واقع سامنے آ جاتا ہے کہ لوگ مظلوم ہونے کے باوجود پولیس اسٹیشن جانے سے کتراتے ہیں۔ اور سب کچھ اللّٰہ کریم پہ چھوڑ کر مظلومیت کی چادر اوڑھے بارگاہ الٰہی میں اپنے دکھ درد بیان کر لینے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں ۔رواں ہفتے میں سوموار کو شائع ہونے والے اخبارات میں چھپنے والی اس خبر سے پولیس کے محکمے کی ساکھ پہ جو سوالیہ نشان ثبت ہوئے ہیں انکے مکمل جوابات شاید چند دنوں بعد سامنے آ ہی جائیں ،اور اس حوالے سے عوام میں پائے جانے والے اضطراب میں کمی بھی واقع ہو جائے ، مگر اذیت ناک موت سے ہمکنار ہونے والا پچاس سالہ ملزم اعجاز اب کبھی واپس نہیں آئے گا جو اپنے لواحقین کو دائمی جدائی دے کر اپنے تمام تر اعمال کے ساتھ قبر میں اتار دیا گیا ہے ۔ لین دین کا معاملہ تھا جس میں گوجرانوالہ کی تحصیل کامونکی کے تھانے واہنڈو کی پولیس چوکی کالی صوبہ میں لاہور بھگت پورہ کے رہائشی پچاس سالہ اعجاز کو گرفتار کر کے لایا گیا اور مبینہ طور پر اسے تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا ۔ ملزم کے بھائی کی مدعیت میں چھے افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جبکہ پولیس کی حراست میں مذکورہ ہلاکت کی اطلاع ملتے ہی سی پی او سرفراز فلکی اور ایس ہی صدر موقع پر پہنچ گئے اور چوکی انچارج جان محمد کو موقع پر ہی حراست میں لے کر ایس ایچ او شبیر گل کو معطل کر دیا گیا ہے ۔ ہلاک شدہ ملزم کی گردن پہ رسے کے نشان اور ناک منہ سے جاری خون ، اپنے دامن میں کئی سوالات لئیے ہوئے ہے۔ایس پی صدر عبد الوہاب کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے جو پوسٹ مارٹم رپورٹ اور اپنی انکوائری کے مکمل ہونے پر ہی حقائق کو سامنے لائے گی ۔ اسی تناظر میں قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ سوموار ہی کے روز اخبارات میں ایک اور خبر بھی قارئین کے سامنے کچھ یوں جلوہ افروز تھی کہ ایس ایس پی سید علی کی زیر نگرانی اشرف مارتھ شہید ڈسٹرکٹ پولیس لائن گوجرانوالہ میں تفتیشی افسران کے لئیے ایک روزہ ٹریننگ ورکشاپ کا انعقاد بھی کیا گیا تھا جس کا مقصد تفتیشی امور میں بہتری لانے کے ساتھ کردار سازی کے ذریعے روحانی ترقی کا حصول بھی تھا ۔ ہلاک شدہ ملزم کہ جس کا اگر کوئی جرم تھا بھی تو وہ عدالت کی امانت تھا ، مگر اسے عدالت میں پیش ہونے کا موقع ہی نہ مل سکا اور وہ روحانی ترقی کے متمنی افسران کی کردار سازی کے کرشمے دیکھنے سے محروم ہی اگلے جہان چلا گیا ۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے کرتا دھرتاؤں کو اس ایک واقع کو محض ایک معمولی واقع سمجھ کر ہی فراموش نہیں کر دینا چاہئیے کہ ، رات کی بات کا مزکور ہی کیا ،چھوڑئیے رات گئی بات گئی ، نہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہونے والا ، لوگ یاد رکھتے ہیں،انتخابات بھی ہونے ہیں، انسان کی ہلاکت ہوئی ہے ،ملزم تھا مگر تھا انسان ہی ، اور اگر یہ قتل ہے تو یاد رہے ہمارے دین اسلام میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے ۔گلی محلوں میں صفائی ستھرائی کے لئیے کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہوتی ، ایک ایگزیکٹو آرڈر ہی کافی ہونا چاہئیے ،مگر جہاں مکمل طور پہ یہ ممکن نہیں ہو سکا وہاں روائیتی تھانہ کلچر کے وجود سے جنم لینے والی گندگی کی صفائی ، اس حکومت کے بس کی بھی بات نظر نہیں آ رہی ، ورنہ ایسے واقعات کبھی بھی وقوع پذیر نہ ہو پاتے۔ بہرحال اب اس معاملے میں پیش رفت چونکہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ تک موقوف ہے تو عرض کرنے والی بات صرف اتنی ہے کہ اگر انکوائری رپورٹ میں ڈنڈی ماری گئی اور انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھا گیا تو زیادہ سے زیادہ اور کیا ہوگا ، ہلاک شدہ مزید ہلاک ہونے سے تو رہا ، لیکن اس کے لواحقین کی جو نفسیاتی اور سماجی حالت تشکیل پائے گی اس کے نتائج اس خاندان کی آنے والی نسلوں تک کو بری طرح متاثر کریں گے ،جس کے ذمہ دار متعلقہ افسران ہونگے ۔لہٰذا متعلقہ انکوئری ممبران کو یہ بات ضرور ذھن نشین کر لینی چاہئیے کہ ، قریب ہے یارو روزِ محشر چھُپے گا کشتوں کا خون کیونکر ،جو چُپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا۔
______________________________________
اےآربابرایک کہنہ مشق صحافی ہیں۔ سیاسیات اور ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز اور گجرات یونیورسٹی سے میڈیا اسٹڈیز میں ایم فل کرنے کے بعد آج کل اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ ان کی تحریریں باقاعدگی سے’’کاف سے کالم ‘‘کے مستقل عنوان سے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتی ہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں