“اے میری قوم تیرے حسنِ کمالات کی خیر” تحریر: عمران رشید

گزشتہ کل کے الیکشن کے گھر نتائج دیکھنے کے بعد کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی،ہاں دِل رنجیدہ خاطر ضرور ہوا۔
وہ بھی اُن لوگوں کے لیئے،جو شائید ان نتائج کے ذمہ دار بھی نہیں،شائید ذمہ دار بھی ہیں۔کیونکہ ووٹ دے کر ان لوگوں کو منتخب کرتے ہیں،جو منتخب ہونے کے بعد کبھی نسل کے نام پر اور کبھی قومیت اور مذہب کے نام پر انہی جمہور کا بچا کھچا خون چوسنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔اور شرم بھی کیوں کریں،وطن فروشی،ضمیر فروشی اور دین فروشی تو نسل در نسل ان کی رگوں میں دوڑتی ہوئی اب ان کے جینز کا لازمی جزو بن چکی ہے۔
المیہ یہ نہیں کہ مجبور اور مقہور اور پڑھنے لکھنے سے نابلد عوام اتنا شعور نہیں رکھتے کہ وہ کن لوگوں کو اپنا مستقبل سونپتے ہیں،دکھ اس بات کا ہے یہ لوگ تو ان سے روٹی کپڑے اور مکان کے لایعنی نعرے کی آڑھ میں اللہ تعالیٰ کی زمین پہ اپنے پورے قد سے کھڑے ہونے کا حق بھی چھینے جارہے ہیں۔
خود ان ووٹروں کے باپ دادا اپنی چھت اور مکان کی آس لئے اپنی قبروں میں اتر گئے،ان کو پھر بھی ہوش نہیں آتی کہ ہم جن لوگوں کو منتخب کرتے ہیں یہ تو صرف اپنے اور اپنی اولادوں کے مکانات تعمیر کرنے کے لیئے اقتدار میں آتے ہیں۔یہ تو ازلی جھوٹے،مکار ،فریبی اور سودےباز ہیں۔
کتنے ہی طبقات ،ریڑھی بان،کوچوان،خوانچہ فروش،ان کی لوٹ مار کی بھینٹ چڑھ کے صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔
اور دکھ اس بات کا بھی ہے جن کا کام راہبری تھا انہوں نے راہزنی کو رہنمائی سے افضل جانا۔
ساٹھ ستر سال کی اوسط انسانی زندگی میں ہم لوگ صاحبان اقتدار،خواہ وہ سیاست دان ہوں،یا اعلیٰ سرکاری افسران، ان سے مراسم استوار کرتے گزار دیتے ہیں کہ کل کلاں کو یہ لوگ ہمارے ذاتی کاموں اور کاروباروں میں بروئے کار آتے ہیں۔
بنا یہ دیکھے کہ ان لوگوں کا یہ کروفر کہیں مالِ حرام کی بدولت تو نہیں۔اور اکثر لوگوں کی تو ان کے تلوے چاٹتے گزر جاتی ہے۔
دکھ اس بات کا بھی ہے کہ ابلاغیات کے شعبے میں بھی حق گوئی کا پرچم بلند رکھنے والے ، معدودے چند لوگ رہ گئے ہیں۔زر پرستی اور شاہ پرستی کا چلن عام ہوگیا ہے۔
اور اگر ہم تھوڑی سی تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کریں تو معلوم پڑتا ہے کہ خلافت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور سے جوڑ توڑ کا جو سلسلہ جاری ہوا،وہ آج تک نہیں رکا۔دور خواہ کوئی بھی رہا ہو،بھلے وہ اموی حکومتیں ہوں یا عباسی سلطنتیں یا پھر مجاہد ِیروشلم سلطان صلاح الدین ایوبی کا دور،مسلمان مال و دولت کے لیے اپنا ضمیر بیچتے آئے ہیں۔
اچھنبے کی بات نہیں۔
حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
حضرت کعب بن عیاض سے روایت ہے۔
“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ہر امت کی خاص آزمائش ہوتی ہے،اور میری امت کی خاص آزمائش مال ہے”
بحوالہ۔معارف الحدیث۔56/2.

برصغیر کی تاریخ پر تو علامہ اقبال بھی اپنا نوحہ درج کروا گئے۔

“جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگِ ملت ننگِ دین ننگِ وطن۔”

اقبال دور بیں تھے غیب بیں نہیں۔غیب کا علم صرف حق تعالیٰ کے لئے خاص ہے۔
انہیں معلوم نہ تھا کہ بعد میں ایسے میر بھی آئیں گے جو قلم کشائی اور خطبوں میں لب کشائی سیکھ کر قوم کو “حاطب لیّل” بنا دیں گے۔دہائیاں گزر گئیں ارضِ پاک کے باسی جملہ دو پارٹیوں کے آسیب زدہ سائیوں سے چھٹکارا نہ پا سکے۔
لیکن یاد رہے،جو لوگ مال و دولت کے لئے اپنا ضمیر اور ایمان لٹائے بیٹھے ہیں۔انہیں معلوم ہونا چاہیے۔
بقولِ شاعر۔

“میں نے حق چھوڑا تھا اندیشٔہِ غربت سے حفیظ

سوچتا ہوں تو دل احساس سے ہِل جاتا ہے

ہائے اس امر سے مجھے نہ تھی کچھ آگاہی

رِزق تو اس دار میں کتوں کو بھی مل جاتا ہے۔”

______________________________________
عمران رشید ایک کہنہ مشق کالم نگار اور وسیع المطالعہ لکھاری ہیں ۔ ماس کمیونیکیشن میں ایم فل کرنے کے بعد کینیڈا میں مقیم اور” فکرو خیال ” کے مستقل عنوان سے لکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں