بیٹی کاگھر نہ ٹوٹے دل بھلے ٹوٹ جائے، تحریر: ثناء آغا خان

ہماری سکیورٹی فورسز اورقانون نے آج تک صرف ان عناصر کو گرفت میں لیاہے جوقتل ،ڈکیتی ، چوری ،اغواءیا منشیات کی تجارت میں ملوث ہیں۔ قانون شکنی کاارتکاب کرنیوالے عناصر کو توگرفتارکرلیا جاتا ہے لیکن آج تک دل شکنی کرنے پر کسی کیخلاف ایف آئی آر درج رجسٹرڈ نہیں کی گئی۔جسمانی اذیت قابل دست اندازی پولیس ہے لیکن ذہنی اذیت دینے پرکبھی کسی کیخلاف کوئی کیس نہیں بنایاجاتا حالانکہ انسان کو دماغی اذیت بلاشبہ جسمانی اذیت سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے،یہی حالات ہمارے معاشرے میں عورت کے ساتھ ہیں۔عورت کوہرصورت میں خواہ وہ ماں یابہن ہے ،بیوی یا پھربیٹی ہے ،اسے مردحضرات کی مرضی اورخوشی کیلئے اپنی مرضی اورخوشی قربان کرناپڑتی ہے۔چودہ سوسال قبل اسلام نے خواتین کوجوحقوق فراہم کئے تھے وہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خواتین کودستیاب نہیں ہیں۔گھروں اوردفاترمیں کسی مقام پرعورت کواس کاجائزمقام نہیں دیاجاتا اورہمارے مردحضرات اسے برابری کی بنیادپرآگے بڑھنے کیلئے راستہ دینے کیلئے تیار ہیں۔
ماں باپ کے گھر سے اس کی ڈو لی بھی جنازے کی طرح اٹھائی جاتی ہے ،پھر اسے ماں باپ اوربھائیوں کا مان اوربھرم رکھنا زندگی بھر کیلئے پتھر بنا دیتا ہے۔ماں بات کولگتا ہے کہیں ان کی بیٹی کاگھر نہ ٹوٹ جائے لیکن اگرگھر اورمعاشرے میںماں باپ کی عزت بچاتے بچاتے اسی نازک اندام بیٹی کادل بار بار ٹوٹتا ہے تواس سے کسی کی صحت پرکوئی فرق نہیں پڑتا ۔ایک ماں جس قسم کے منفی رویوں سے اکتا کر اپنی بیٹی کو بزدل بناتی ہے اسی سلسلہ کو پھر دوہراتی ہے۔صرف وجود تبدیل ہوتے ہیں جبکہ حقیقت میںایک روح اپنا خوف اوروسوسے دوسرے وجود میں اتار دیتی ہے۔دل سے ہرکوئی اس کو غلط سمجھتا ہے لیکن اپنی بیٹی کو یہی سمجھاتے ہیں کہ شادی کے بعد شوہر کا گھر تمہارا سب کچھ ہے۔اب تم کوزندگی بھروہیں جینا وہیں مرنا ہے اپنی خواہشات کوکچلنا،اپنی ذات کی نفی کرنا ،اوراپنی زندگی میں بے شمار گنجائش پیدا کرنا بیٹیوں پر فرض کر دیا جاتا ہے۔جس کوماں باپ کے گھر اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بناکر کھلائے جاتے تھے۔وہی بیٹیاں بیاہ کے بعد اپنے ماں باپ کے سامنے مصنوعی خوشی کا ڈرامہ رچاتی رہتی ہیں۔کبھی اپنے مجاذی خدا کیلئے تو کبھی اپنی اولاد کیلئے قدم قدم پرکمپرومائزکرتی ہیں۔
کچھ دن پہلے ایک جوان لڑکی کے انتقال کا سن کر جس کو میں بہت قریب سے جانتی تھی بہت بے چین ہوگئی۔وہ جس ایمبولینس کے اندراپنے آخری سفرپرگامزن تھی اس دوران میری گاڑی بھی اس کے پیچھے پیچھے دوڑ رہی تھی۔ مرحومہ کے دو معصوم بچے اس بات سے بے خبر تھے کہ اب انہیں ان کی ماں کبھی نہیں ملے گی اورہمیشہ ہمیشہ کیلئے بچھڑ جائے گی۔مجھے اس راستے میں صرف ایک بات سمجھ میں آئی کے اسی راستے کے اختتام کیلئے انسان کسی نہ کسی طرح اپنی زندگی جی رہا ہے یاشاید ہم میں سے ہرکوئی اپنااپنابوجھ ڈھورہا ہے۔بیٹی ہمیشہ اس خوش گمانی میں رہتی اورجیتی ہے کہ اس کے ماں باپ کا گھر اب بھی اس کا اپناگھر ہے یا شاید اس کے شوہر کا گھر مگر شاید عورت کا اصل گھر وہی ہے جہاں وہ ایمبولینس کسی کی جوان بیٹی اوردومعصوم بچوں کی ماں کوایک میت کی صورت میں لے جا رہی تھی۔وہاں عارضی قیام کیلئے یقینااب اسے کسی کو خوش نہیں کرناپڑے گا، کسی کا غصہ برداشت نہیں کرناپڑے گا،وہاں کسی کی گالی یابد کلامی نہیں سننا پڑے گی ، کسی کاظلم اوراستحصال برداشت نہیں کرناپڑے گا۔ کس وقت دوسروں کو کیا برا لگ جائے ،لوگوں کے تاثرات کے مطابق خود کو نہیں بدلنا پڑے گا کسی غرض کے ترازو میں خود کو نہیں تولنا پڑے گا۔اپنی ذات کی نفی نہیں کرنا پڑے گی۔

ٹھوکریں کھاتے ہوئے لوگ سنبھل جاتے ہیں
ہاں مگر جینے کے انداز بدل جاتے ییں

اپنا تبصرہ بھیجیں