مفتی نامہ، تحریر:ثناء آغا خان

کدھر ہیں اوریا مقبول جان اور انصار عباسی جیسے سماجی ٹھیکیدار۔ جنہیں بسکٹ کے کمرشل میں بھاگتی لڑکی فحش لگتی ہے لیکن نماز اور کلمے کا ذکر کر کے ایسی غلیظ گفتگو کرنے والا عالم دین؟ کدھر ہیں وہ فسادی نام نہاد علماء جو فاتر العقل پر تو توہین مذہب کے فتوے دیتے نہی گھبراتے لیکن ہوش حواس میں اسلام اور شعائر اسلام کا مذاق اڑاتے ایسے جنس زدہ مولوی کو اپنی صفوں میں برداشت کرتے ہیں
مجھے آج بھی یاد ہے نشتر کے مردہ خانے میں قندیل بلوچ کی لاش لائی گٸ میں اس ایمبولینس سے چند فرلانگ فاصلے پر تھی وہ “قندیل” جس کے گرد “پروانوں” کا ایک ہجوم ہوتا تھا ، لیکن آج لوگ اس کی ایمبولینس کے قریب نہیں جارہے تھے۔ پوسٹ مارٹم ہوا اور قندیل کو ڈی جی خان کے نواح میں ایک گمنام قبر میں اتار دیا گیا۔میں ذاتی طور پر قندیل بلوچ کے بعد بیگو لاٸیو ٬ ٹک ٹاک کلچر کو اپنے معاشرے میں قندیل بلوچ ٹرینڈ کا نام دیتی ہوں٬ کم از کم پاکستان میں وہ لڑکی ٹرینڈ سیٹ کرنے والی پہلی مثال تھی۔اس بات میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کہ اگر آج قندیل بلوچ زندہ ہوتی تو بگ باس میں شمولیت کے بعد پاکستان کی بہت بڑی سٹار ہوتی مگر وہ اسی معاشرتی انتہاپسندی کا شکار ہوگٸ جس کا شکار اس معاشرے کی کٸ گمنام لڑکیاں اکثر ہوجاتی ہیں۔ قندیل بلوچ سے حریم شاہ تک کا سفر بہت چھوٹا ہے مگر جس طرح قندیل بلوچ نے بہت گمنام لڑکیوں کونام دیا ٬ اسی طرح مفتی قوی بھی ٹرینڈ سیٹ کر چکا ہے۔ اس رنگین مزاجی کا آخر ڈی جی خان کی گمنام قبر٬ انصاف کی دھجیاں٬ معاشرتی گراوٹ کی انتہا یا کچھ بھی ہو مگر ہمیں اب دین کو روح سے پڑھنا ہوگا۔ میں کتنے اللّٰہ تعالیٰ کے ولی جانتی ہوں جو دیکھنے میں انگریز ہیں مگر نجانے کتنے بھوکے ان کی خیرات سے رات سکون کی نیند سوتے ہیں۔ آپ قندیل بلوچ سے حریم شاہ تک ہر عورت کو دیکھ کر مزے بھی لیں٬ انہیں گالی بھی دیں مگر ایک نظر آپ کو معاشرے کے اس مرد پر بھی ڈالنی ہوگی جو ایک ہاتھ میں دین اور دوسرے ہاتھ میں منافقانہ حوس رکھتا ہے۔ یہ حوس عورت ٬ دولت ٬ کرسی ٬ شہرت کسی بھی قسم کی ہوسکتی ہے۔ عورت کی حوس انسان کو ننگا کردیتی ہے اور اگر پورا معاشرہ ہی پیری مریدی کی آڑ میں کسی ایسے کے پیچھے لگا ہو تو وہ پورا معاشرہ ہی ننگ کہلاۓ گا۔پھر کون حریم اور کون مفتی؟
معاشرہ تنگ ہے۔ دیکھنے والی آنکھیں اور بڑبڑانے والی زبانیں بھی ہیں، بس آواز بلند والے کرداروں کا قحط ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں