قلم کار، تحریر: ثناء آغا خان

پاکستان میں جس طرح متعدد سیاسی پارٹیاں سرگرم ہیں اس طرح آزادی صحافت کی حفاظت یقینی بنانے ، صحافیوں کی فلاح و بہبود کیلئے دوررس اصلاحات کرنے اور ان کے بنیادی حقوقِ کی حفاظت کیلئے ورلڈ کالمسٹ کلب اور ایمرا سمیت کئی ایک صحافی تنظیمیں بھی اپنا فعال کردار ادا کررہی ہیں۔
عام عوام کی طرح قلم قبیلے کے لوگ بھی اپنے ووٹ سے اپنی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں۔ آئینی طور پر ملک میں عام انتخابات پانچ سال بعد ہوتے ہیں تاہم لاہور پریس کلب سمیت ملک بھر میں پریس کلب کی قیادت کا ہر سال بعد انتخاب ہوتا ھے اور صحافت سے وابستہ خواتین وحضرات نہایت باوقار ماحول میں اپنے اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتے ہیں۔
لاہور پریس کلب کے حالیہ الیکشن میں جرنلسٹ پینل کامیاب قرار پایا اور ارشد انصاری گیارہویں بار صدر منتخب ہوئے ۔ اس بار جرنلسٹ پینل کی طرف سے ارشد انصاری ، پروگریسیو پینل کی طرف سے صدارت کیلئے عبدالمجید ساجد کے ساتھ ساتھ ایک تیسرا پینل بھی میدان میں تھا جس کے صدارتی امیدوار سابقہ سیکرٹری بابر ڈوگر تھے جبکہ نجی چینل “ابتک” کے انتھک اور پروفیشنل رپورٹر فرحان علی خان سمیت گورننگ باڈی کیلئے متعدد آزاد امیدواران بھی میدان میں اترے تھے ، اس بار بھی چند خواتین گورننگ باڈی کیلئے اس معرکے میں شریک تھیں تاہم جرنلسٹ یا پروگریسو پینل نے آج تک صدر یا سیکرٹری کیلئے کسی خاتون صحافی کو نامزد نہیں کیا اور یقیناً یہ اقدام خواتین صحافیوں کے ساتھ امتیازی رویہ کے زمرے میں آتا ہے۔ خواتین سمیت بیسیوں ورکنگ جرنلسٹ لاہور پریس کلب کی ممبر شپ سے محروم ہیں۔ قوی امید ہے لاہور پریس کلب کے نومنتخب صدر ارشد انصاری ، سیکرٹری زاہد چوہدری ، سینئر نائب صدر جاوید فاروقی ، نائب صدر سلمان قریشی ، ممبر گورننگ باڈی فرحان علی خان اور دوسرے خواتین وحضرات لاہور پریس کلب کو گھوسٹ ممبرز سے پاک اور خواتین وحضرات ورکنگ جرنلسٹ ہوتے ہوئے بھی ممبر شپ سے محروم ہیں انہیں لاہور پریس کلب کا ممبر بنانے کیلئے ضروری اقدامات کریں گے۔
الیکشن والے دن رم جھم نے شدید ٹھنڈ میں مزید ٹھنڈ کا تڑکا لگا دیا تھا لیکن اس کے باوجود لاہور پریس کلب میں میلے کا سماں تھا اور وہاں امیدواروں کے ساتھ ساتھ ان کے حامی بھی اپنے پسندیدہ امیدواروں کی کامیابی وکامرانی کیلئے انتہائی پرامید ، پرعزم ، گرمجوش اور پرجوش تھے۔
اہل سیاست کی طرح اہل صحافت انتخابات میں ایک دوسرے پر ذاتی حملے اور مدمقابل امیدوار کا میڈیا ٹرائل نہیں کرتے۔ قلم قبیلے سے وابستہ خواتین وحضرات نے آج تک پری پول اور پوسٹ پول رگنگ یعنی دھونس دھاندلی کا شور نہیں مچایا بلکہ ناکام امیدوار بہت خوش دلی اور نیک خواہشات کے ساتھ کامیاب امیدوار کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر قلم قبیلے کی ویلفیئر کیلئے اپنا اپنا تعمیری کردار ادا کرتے ہیں ، اہل صحافت کا یہ صحتمںدرویہ اہل سیاست کیلئے قابل تقلید ہے۔
پریس کلب انتظامیہ کی طرف سے ووٹرز کیلئے گرماگرم چائے کا اہتمام کیا گیا تھا لہذاء وہاں موجود خواتین وحضرات مختلف موضوعات پر دوستانہ انداز میں گپ شپ کرتے ہوئے چائے نوش کررہے تھے۔ موسم سرما کے خوبصورت پیرہن پہنے خواتین صحافی بھی مرکز نگاہ تھیں ۔ خواتین نے تجارت، سیاست اور صحافت سمیت زندگی کے ہر میدان میں اپنی قابلیت اور اہلیت منوائی ہے۔ میڈیا ہاؤسز میں مرد حضرات کے مقابلے میں خواتین کی نمائندگی یا تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا مالکان صحافت کو اپنا پروفیشن بنانے والی خواتین کو مزید مواقع فراہم کریں ، صحافت اور سیاست سمیت ہر شعبہ میں خواتین کے ساتھ امتیازی رویوں کی مجرمانہ روش ختم کی جائے۔ خواتین اہلیت ، قابلیت اور صلاحیت کے معاملے میں ہرگز مرد حضرات سے کم نہیں ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللّہ علیہ کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح رحمتہ اللّہ علیہ اور بینظیر بھٹو آج بھی خواتین کیلئے رول ماڈل ہیں۔ جہاں عبدالستار ایدھی کا نام آتا ہے وہاں بلقیس ایدھی کے کام سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ خواتین اپنے گھر ، ہر مشن اور اپنے پروفیشن سے بہت مخلص ہوتی ہیں۔ جس طرح مرد حضرات سیاسی جماعت اور میڈیا گروپ تبدیل کرتے ہیں اس طرح خواتین ہرگز نہیں کرتیں۔ پاکستان کی آبادی میں خواتین کا جو تناسب ہے وہ دیکھتے ہوئے انہیں سرکاری اور نجی اداروں میں بھرپور نمائندگی دی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں