مینار پاکستان اور نیا پاکستان، تحریر: ثناء آغا خان

ایک شخص اپنے دوست سے بہت متاثر تھا کیونکہ اس کی بیوی اس سے بہت ڈرتی تھی۔ اس نے اپنے دوست سے پوچھا کہ تم نے اپنی بیوی کو کس طرح قابو کیا۔ دوست نے بہت شوخ انداز سے جواب دیا کہ شادی کے دوسرے دن ایک بلی ہمارے کمرے میں آگئی میں نے اسے کمرے سے باہر نکالنے کے لیے مخصوص آواز نکالی مگر وہ بلی پھر بھی کمرے سے باہر نہ نکلی تو میں نے غصے میں آکر بلی کو جان سے مار دیا۔ اس واقعہ کے بعد میری بیوی مجھ سے ڈرنے لگی۔ اس شخص نے سوچا کہ بیوی کے دل میں ڈر اور خوف پیدا کرنے کا یہ تو بڑا آسان نسخہ ہے۔ ایک دن بلی اس کے کمرے میں بھی آگئی تو اس نے بلی کو باہر نکالنے کے لیے آواز نکالی جب وہ باہر نہ گئی تو اس نے ڈنڈا لے کر بلی کو جان سے مار دیا اس کی بیوی نے یہ دلخراش منظر دیکھا تو ڈنڈا اٹھا کر اپنے شوہر کے کندھے پر دے مارا اور کہا کہ تم نے ایک معصوم جانور کو کیوں ہلاک کردیا۔ وہ شخص اپنے دوست کے پاس گیا اور اسے سارا واقعہ سنایا اس کے دوست نے کہا کہ ’’گربہ کشتن روز اول‘‘ کہ بلی کو پہلے دن مارنا پڑتا ہے۔ نیا پاکستان میں عمران خان نے نیا عمران خان بننے کا موقع گنوا دیا ہے۔ ان کو وزیراعظم کا منصب کا حلف اُٹھانے کے بعد ہی اپنے آپ کو نیا عمران خان ثابت کرنا چاہیے تھا۔ 
اگر نئے پاکستان میں پرانے پاکستان کے مقابلے میں زیادہ مہنگائی نہ ہوتی تو پی ڈی ایم کے عوامی اجتماع ہرگز کامیاب نہ ہوتے۔تمام تر سیاسی حلقے اپنے اپنے مفاد کے گرد بین بجاتے نظر آ رہے ہیں جبکہ بیچارے عوام اپنی حالت زار کے ہاتھوں مجبور ہیں ۔ اگر عمران خان نے نیا پاکستان بنادیا ہے تو پھر ان کا طرز سیاست کیوں پرانے پاکستان والا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام اور پاکستان کی تعمیر وترقی کیلئے اپنا اپنا آئینی کردار ادا کریں ۔ جمہوری قوتوں کے درمیان تصادم سے عوام کو کچھ ملے گا اور نہ جمہوریت مستحکم ہوگی۔
سیاسی جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے گریٹر اقبال پارک (مینارِ پاکستان) میں حکومت مخالف جلسہ عام میں عوام کی بڑی تعداد میں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے ۔
پی ڈی ایم کے ۱۳ دسمبر کے پاور شو کیلئے پنڈال میں چالیس ہزار سے زائد کرسیاں لگائی گئی تھیں جبکہ 120 فٹ طویل اور 60 فٹ چوڑا خصوصی اسٹیج تیار کیا گیا تھا۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ اسٹیج پر 80 فٹ لمبی اور 20 فٹ چوڑی اسکرین بھی لگائی گئی ۔ 
گذشتہ روز لاہور کے ڈپٹی کمشنر کے جاری کردہ نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ پی ڈی ایم کے رہنماؤں مریم نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمٰن سمیت خواجہ سعد رفیق، سردار ایاز صادق، رانا ثناء اللّٰہ اور دیگر کی زندگی کو خطرہ ہے۔
اس کے علاوہ نوٹیفیکشن میں کہا گیا کہ کورونا وائرس کے دوران عوامی صحت اور تحفظ کو مدِنظر رکھتے ہوئے کسی جلسہ عام کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور ایسا کوئی بھی عوامی اجتماع غیر قانونی ہوگا۔
جلسہ عام کے سلسلہ میں شہر بھر میں کہیں بھی کسی قسم کی رکاوٹیں کھڑی نہیں کی گئی تھیں۔تاہم پولیس اور سکیورٹی فورسز کی کثیر تعداد لاہور شہر میں جگہ جگہ تعینات کی گئی تھی۔
اسٹیبلشمنٹ کے پیش نظر صرف اپنی پسند کی حکومت کا تحفظ نہیں ہوتا بلکہ وہ دیگر داخلی اور خارجی عوامل پر بھی کڑی نظر رکھتی ہے۔ پی ڈی ایم کے سیاسی طاقت کے حالیہ مظاہروں کے بعد پاکستان میں ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو برقرار رکھنا ایک چیلنج ہو گا ۔ پی ڈی ایم کے قائدین کا کہنا ھے کہ جنوری کے آخر میں یا فروری کے اوائل میں پوری قوم اسلام آباد کی طرف مارچ کرے گی اور پارلیمنٹ کے استعفے ہم اپنے ساتھ لے کر جائیں گے، ہم ایسی پارلیمنٹ پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی اس پارلیمنٹ کے ذریعہ سے ناجائز حکومت کو چلنے دیں گے، ہم اس کا خاتمہ کر کے دم لیں گے اور ووٹ کی مقدس امانت عوام کو واپس دلا کر دم لیں گے۔‘
یہ وہ اعلان تھا جو پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے لاہور کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
مریم نواز نے کہا کہ عمران خان کا یہاں 2011 کا جلسہ آئی ایس آئی کے سربراہ شجاع پاشا نے کروایا تھا۔ مریم نواز نے کہا کہ جس تبدیلی کی بنیاد 2011 میں اس مینار پاکستان کے نیچے رکھی گئی تھی آج لاہوریوں نے اس جعلی تبدیلی کو اسی میدان میں دفن کر دیا ہے۔
انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اب تمہیں جانا ہو گا۔‘جلسہ کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ جلسوں میں ماسک پہن کر آئیں کیوں کہ مجھے آپ کی زندگی بہت عزیز ہے، لیکن کورونا سے زیادہ خطرناک تو کووِڈ 18 ہے، لاہوریوں نے مینار پاکستان کے سائے میں نئی تاریخ رقم کی ہے، لاہور پاکستان کے چاروں صوبوں کو جوڑے گا۔ تاہم غیر جانبدار سیاسی پنڈت پی ڈی ایم کے حالیہ پاور شو کو فلاپ شو قرار دے رہے ہیں۔ محمود اچکزئی کی گفتگو کو بھی بہت ناپسند کیا گیا۔ مینار پاکستان کے سبزہ زار میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت ہی ڈی ایم کی گیارہ پارٹیاں اتنا بڑا اجتماع نہ کرسکیں جو پی ٹی آئی نے تنہا کیا تھا۔ میں سمجھتی ہوں کس کا پاور شو زیادہ بڑا تھا یہ اہم نہیں بلکہ عوام کو کس نے زیادہ ریلیف دیا یہ بات اہمیت کی حامل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں