قربانی کے فضائل اور مسائل، تحریر: ثناء آغا خان

عیدالضحیٰ مسلم کلینڈر کے آخری مہینے کی 10 ذی الحج کو منائی جاتی ہے۔ اس عید پر جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے جس کی وجہ سے اسے عید قرباں کہا جاتا ہے۔ حُجاج قربانی کرنے کے بعد حج کے لیے پہنا گیا خصوصی لباس، احرام، اتار دیتے ہیں۔

قربانی کا گوشت تین حصوں میں بانٹا جاتا ہے، جس میں سے ایک حصہ اپنے لیے، دوسرا رشتہ داروں کے لیے اور تیسرا غریبوں کے لیے ہوتا ہے۔

اطاعت خداوندی کا یہ نرالا انداز کیوں کر وقوع پذیر ہوا ، بقول شاعر کہ خدائے پاک نے خود ان کی ایسی تربیت کی تھی ۔۔۔۔شعور و فکر و دانائی کی وہ دولت انہیں دی تھی ۔۔۔۔خدا نے ہی انہیں بخشا تھا وہ ایثار کا جذبہ ۔۔۔۔خدا کے حکم پر دینے چلے بیٹے کا نذرانہ ۔۔۔۔خدا کے امتحان میں کامیاب و کامراں آئے۔۔۔۔اسی باعث جہاں میں وہ خلیل اللہ کہلائے
عجیب منظر تھا جب باپ نے اپنے نو عمر فرزند سے پوچھا ، اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہاہوں ، بتا تیری کیا مرضی ہے ؟ ‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے یہ رائے اس لیے نہیں پوچھی کہ اگر بیٹے کی رائے ہو گی تو ایسا کروں گاورنہ میں اپنے بیٹے کو ذبح نہیں کروں گا۔ نہیں نہیں ایسا ہر گز نہیں۔ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رائے اس لیے پوچھی تھی کہ میری نبوت کا وارث اس آزمائش میں پورا اترتا ہے یا نہیں اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اللہ کے حکم کے بارے میں بیٹے کا تصور کیا ہے؟
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی فرمابرداری دیکھئے ،وہ بیٹا بھی تو کوئی عام بیٹانہیں تھا ، وہ بھی آخر خلیل اللہ کے فرزند ارجمند تھا ۔ اگر باپ خلیل اللہ کے مرتبہ پر فائز تو بیٹے کے سر پر بھی ذبیح اللہ کا تاج سجنے والا تھا۔ کیونکہ آپ علیہ السلام ہی کی صلب اطہر سے آقائے دو جہاں ،تاجدارانبیاء،شفیع روزجزا، جناب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،اپنے نورمبین سے اس جہان کو دائمی روشنی سے منور کرنے والے تھے۔ اس لیے وارث نبوت نے بھی اطاعت کی حد کر دی۔آپ علیہ السلام نے اپنے باپ کے آگے سر کو جھکا دیا اور یہ بھی نہیں پوچھا کہ ابا جا ن مجھ سے کیا جرم سر زد ہوا ہے ؟میری خطا کیا ہے؟ جو آپ مجھے موت کے حوالے کرنے جا رہے ہیں، بلکہ قربان جاؤں! اس بیٹے پر جس نے نہایت عاجزی وانکساری سے اپنے باپ کے آگے گردن جھکاتے ہوئے جوکلمات اپنی زبان سے ارشاد فرمائے وہ قیامت تک نسل انسانی کے لیے مشعل راہ بن گئے۔ چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا ’’اس (بیٹے) نے کہااے ابا جان!آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا گیاہے، انشاء اللہ ! آپ مجھے عنقریب صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ ( سورۃ الصفّٰت آیت 102 )‘‘ اے اباجان! میں روؤں گا نہیں اور نہ ہی میں چلاؤں گا اور نہ ہی آپ کو اس کام سے منع کروں گا،اب آپ چلئے اور اس حکم کی تعمیل میں دیر نہ کیجئے۔انشاء اللہ ! آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی ۔۔۔۔سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
اب آگے بڑھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ تعالی کے عشق میں اپنی گردن مبارک زمین پر رکھ دی ، اور باپ نے چھری کو چلانا شروع کیا تو آسمان دنیا کے فرشتے پہلی دفعہ اطاعت خداوندی اور تسلیم و رضا کا یہ عالی شان منظر دیکھ کر ششدر رہ گئے ، قریب تھا کہ چھری چل جاتی ، لیکن اللہ کریم کی طرف سے ندا آئی ، اے ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکھایا ، یہ ایک بڑی آزمائش تھی تم اس میں کامیاب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے جنت سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے قربانی کیلئے ایک دنبہ بھیج دیا ، اور یوں یہ سنت ابراہیمی قیامت تک ہر صاحب استطاعت پر واجب کردی گئی ۔ وہ قربانی رہ حق میں جو اسماعیل نے دی تھی ۔۔۔مثال اس کی ہمیں تاریخ عالم میں نہیں ملتی ۔۔۔خدا نے اس کی قربانی کو خود ناز سے دیکھا ۔۔

حضور اکرمؐ کا پاک ارشاد ہے کہ قربانی کرنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اور قربانی کے جانورکے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ قربانی کا جانور جب ذبح ہوتا ہے تو پہلے قطرے پر قربانی کرنے والے کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور مع اپنے خون اور گوشت وغیرہ کے لایا جائے گا اور ستر درجے زیادہ وزنی بناکر اعمال کی ترازو میں رکھا جائے گا۔ (کنز)
حضور اقدسؐ نے اپنی اور اپنی تمام امت کی طرف سے قربانی کی تو امت کو بھی زیبا ہے کہ اپنی قربانی کے ساتھ حضور اقدسؐ کی طرف سے بھی ایک قربانی کیا کریں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ ایک بکرا اپنی طرف سے قربانی کرتے تھے اور ایک حضورؐکی طرف سے۔کسی نے آپ سے دریافت کیا تو آپؓ نے فرمایا مجھے حضورؐ کا ارشاد ہے کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کروں، اس لیے میں ہمیشہ کرتا رہوں گا۔(کنز)
قربانی کا یہ عمل اللہ رب العزت کو بہت پسند ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ قربانی کرنے والے کو بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے، رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص قربانی کے دن اپنی قربانی کے پاس جاتا ہے اور اسے اللہ کی راہ میں قربان کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بہشت کے قریب کردیتا ہے، جب قربانی کے خون کا پہلا قطرہ گرتا ہے تو قربانی کرنے والا بخش دیا جاتا ہے، قیامت میں یہی قربانی اس کی سواری ہوتی ہے، جانورکے بال اور پشم کے برابر اسے نیکیاں ملتی ہیں۔‘‘ ایک اور موقع پر آنحضورؐ نے ارشاد فرمایا ’’قربانی دو اور خوشی خوشی دو، جو شخص جانورکا منہ قبلے کی طرف کرکے قربانی دے، اس قربانی کے تمام بال اور خون کے سب قطرے قیامت کے دن تک محفوظ رکھے جائیں گے۔‘‘

جانور کو ذبح کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اسے کم سے کم اذیت پہنچے۔ عید پر جانور زیادہ ہونے کی وجہ سے جانور کو زبح کرنے میں مہارت رکھنے والوں کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ قربانی کے جانور کو زبح کرنے سے پہلے خوب کھلایا پلایا اور گھومایا پھرایا جاتا ہے۔
عید قرباں کے موقع پر اس بات کا بھی پورا خیال رکھنا چاہیے کہ قربانی کے گوشت کی ناقدری نہ ہو، ان مقامات پر جہاں صاحب ثروت لوگوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، وہاں عام طور سے گوشت کی ناقدری ہوتی دکھائی دیتی ہے، کیونکہ ایک شخص بڑے اور پورے جانورکی قربانی کرتا ہے بلکہ بعض توکئی کئی جانوروں کی قربانی کرتے ہیں، ایسے میں ان کے لیے گوشت کی قدر دانی مشکل ہوجاتی ہے، پڑوسیوں، رشتے داروں اور محلہ داروں کے یہاں گوشت بھیجا جاتا ہے تو وہ لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے کیونکہ ان کے یہاں خود یہی کیفیت ہوتی ہے، ایسے حالات میں بہتر یہ ہے کہ وہ لوگ جو کئی کئی جانوروں کی قربانی کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ قربانی کے جانوروں کا گوشت یا قربانی کے جانور ایسے محلوں، گاؤں یا علاقوں میں پہنچائیں جہاں غربت زیادہ ہوتی ہے اور عام طور سے لوگ قربانی نہیں کرپاتے، اگر پاکستان میں ایسے علاقوں کو تلاش کیا جائے تو اس کی ایک طویل فہرست تیار ہوسکتی ہے۔
اگر ایک سے زائد جانوروں کی قربانی کرنے والے لوگ ان علاقوں میں پہنچا دیں تو انھیں قربانی کا ثواب تو ملے گا ہی، ساتھ ہی ان کے قربانی کے جانوروں کا گوشت بھی ضایع نہ ہوگا اور غریب و نادار لوگ اس سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔ بعض لوگ ایسے مقامات یا آبادیوں میں رہتے ہیں جہاں قربانی کے لیے کوئی اطمینان بخش جگہ نہیں ہے۔ وہ قربانی کرنے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اس خطرے کی وجہ سے قربانی نہیں کرتے انھیں چاہیے کہ وہ اس خطرے کی وجہ سے قربانی کو موقوف نہ کریں بلکہ وہ ان علاقوں میں قربانی کا انتظام کرسکتے ہیں جہاں کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہے اور جہاں ان کے قربانی کے جانوروں کا گوشت قدر کے ساتھ مسلمان بھائی استعمال کرسکیں۔

اس بار کی بکراعید تو تھوڑی مختلف ہے۔covid-19 کی وجہ سے بہت سی احتیاطی تدابیر اپنا نا ہوگی کرپٹ قربانی جو کہ سنت ہے اس لیے اس کو ادا کیا جائے گا مگر حکومت کی طرف سے اجتماعی قربانی کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا وائرس جانور سے انسان میں منتقل ہوا ہے لیکن جانوروں میں اس کے پھیلنے کے ابھی شواہد نہیں ملے تاہم لوگوں کو پالتو جانوروں سے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے کیونکہ وہ ان سے پیار کرتے ہوئے ہاتھ پھیرتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالباری کا کہنا تھا کہ قربانی کے جانوروں کو لوگ ہاتھ لگاتے ہیں اگر کوئی کورونا متاثرہ شہری کسی جانور کو ہاتھ لگاتا ہے تو وائرس جانور کے کھال پر رہ سکتا ہے جو بھی دوبارہ اس جانور پر ہاتھ لگائے گا تو وہ متاثر ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ عیدالفطر سے قبل بازار، مارکیٹیں اور شاپنگ مالز کھولنے کی اجازت دے دی گئی تھی، عید کے دس روز کے بعد پاکستان میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔

جبکہ ماہرین صحت اور حکومتی حکام ملک میں کورونا کی وبا کے عروج کے حوالے سے جولائی اور اگست کے ماہ کو اہم قرار دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس ڈ وبا کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آ سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں