انسانیت اورمنشیات، تحریر: ثناء آغا خان

 
عہدحاضر میں منشیات کی لعنت اورنحوست سمیت انسانیت کوکئی طرح کے خطرات اورچیلنجز کاسامنا ہے۔پاکستان میںکروناجیسی وبا کے سبب اگر ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے ہیں توہمارے قابل قدرڈاکٹرز،انتھک نرسزاورپیرامیڈیکل سٹاف کی شب وروزمحنت کے نتیجہ میں کئی لاکھ افراد نے جام صحت بھی نوش کیا ہے لیکن ہماری ریاست نے آج تک منشیات کے عادی لاکھوںافراد کی بحالی اورانہیں پھر سے معاشرے کاصحتمندشہری بنانے کیلئے کوئی منظم پروگرام شروع نہیں کیا ،بیشک ریاست ہماری ماں ہے تویقینا وہ بھی ریاست کے فرزند ہیں انہیں یوں منشیات فروش مافیاز کے رحم وکرم پرنہیں چھوڑاجاسکتا۔اس سلسلہ میں فوری اصلاحات اوردوررس اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔منشیات کی متعدد اورمختلف اقسام تومارکیٹ میں پہلے سے دستیاب تھیں لیکن موت کے سوداگر مسلسل اس جستجو میں لگے رہتے ہیں کہ کسی طرح کو ئی نیا نشہ تیار کیاجائے تاکہ پرانے خریداروں کے ساتھ ساتھ نئے صارف بھی ہماری طرف متوجہ ہوں اورہم انہیں اس زہر کا عادی بناتے ہوئے اپنی تجوریاں بھریں۔ عہدحاضر میںایسے ہی ایک نشے کو  “آئس” کا نام دیا گیاجومیٹھازہر ہے۔”آئس” نامی اس نشے کو چند سال پہلے ہی مارکیٹ میں متعارف کرایا گیا ہے اور اسے یہ نام اس کی کرسٹل حالت یا برف جیسی شکل وصورت کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ماہرین کاکہنا ہے کہ ہر انسان کے دماغ میں نیوروٹرانسمیٹرہوتا ہے، جو انسان کی خواہش اور اس کی تکمیل سے متعلق نظام کا کام کرتا ہے، یہ سسٹم اس وقت متحرک ہوجاتا ہے جب کسی بھی کام کو پہلے پہل تفریح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔منشیات یا نشہ اس وقت نہ صرف پسماندہ اور ترقی یافتہ بلکہ ترقی پذیر اور خوددنیا کی دونوں سپر پاور زامریکا اور چین کیلئے بھی ایک سنگین خطرہ اورچیلنج بناہوا ہے جس سے نجات کیلئے دنیا کی متعدد حکومتیں ہر سال کروڑوں ڈالرزصرف کرتی ہیں،مگر اصل سوال یہ ہے کہ لوگ نشہ کیوں کرتے ہیں اور دیکھتے دیکھتے اس کے عادی کس طرح بن جاتے ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ انسان پہلے پہل نشے کو بطور تفریح یا موج مستی کے طورپر استعمال کرتا ہے، جو رفتہ رفتہ اس کی پختہ عادت بن جاتی ہے۔

 آئس نشہ ہو یا دوسری اقسام کی منشیات ہوں ان کا انجام انسانی صحت کی ابتری کے بعدمختلف قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں کی طرف رغبت اور پھر دردناک موت کے سواکچھ نہیں ہوتا۔ اس سے بچاوکی صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ ہم اپنے اپنے اہل خانہ اور ملنے جلنے والے مردوخواتین بالخصوص طلبہ وطالبات پر گہری نظر رکھیں جو بھی منشیات کا عادی نظر آئے اس کی دلجوئی کرتے ہوئے اسے نشے کی عادت چھوڑنے پر مجبور کریں۔ ان افراد کامناسب علاج یقینی بناتے ہوئے ان کی محرومیوں کامداوااورخاتمہ کیاجائے۔ اگر معاشرے کے مختلف افراداورطبقات نے انفرادی اوراجتماعی حیثیت میں اپنااپناکردارادانہ کیا توخدانخواستہ ہم اپنے پیاروں کواپنی آنکھوں کے سامنے اوراپنے بازوﺅں میں تڑپ تڑپ کرمرتے ہوئے دیکھیں گے۔بدقسمتی سے ایک نشے کاعادی ہماری عدم توجہی اور اظہاربیزاری کے سبب جہاں خود زہرپیتا ہے وہاں دوسروں کوبھی اپنے ساتھ موت کے کنویں میں دھکیلتا رہتا ہے اور ہمیںجس تاریک گلی میں یاگندگی کے ڈھیر پرشروع شروع میں کوئی تنہافرد نشے کی عادت پوری کرتاہوا دکھائی دیتا تھا وہاں چند ماہ بعد مزیددوچار افراد ایک گروہ کی صورت میں نشہ استعمال کرتے ہوئے نظرآتے ہیں ۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ہمارے معاشرے کے کئی لاکھ لوگ نشے کے سبب پل پل مررہے ہیں۔منشیات کے عادی لوگ پورے پورے خاندان بلکہ نسلوں کی بربادی کا سبب بن رہے ہیں جبکہ ان کی دردناک موت سے بدقسمت خاندانوں کو شدیدمعاشرے میں رسوائی کے ساتھ ساتھ شدید رنج و غم اور پچھتاوے کے سواکچھ نہیں ملتا ۔

”آئس” کے استعمال سے انسان میں 3 دن تک جنگجو صلاحیتیں اورغیر معمولی قوت پیدا ہوتی ہیں جبکہ جولوگ آئس کانشہ کرتے ہیں انہیں 3 دن تک بھوک محسوس نہیںہوتی اورنیند بھی نہیں آتی۔مختلف کیمیکلز سے تیار ہونےوالے اس نشے کے عادی افراد کی تعدادمیں دن بدن خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اور اب یہ نشہ بھی ایک مہلک وبا کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے کئی سیاستدان، ٹریڈرز، جسم فروش خواتین، سرکاری افسران، ایلیٹ کلاس، سکول، کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباءو طالبات اس لت کا شکار ہو رہے ہیں۔ایفیڈرین نامی کیمیکل کھانسی، نزلہ، بخار کی ادویات بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔قانون نافذ کرنےوالے اداروں کی تحقیقات کے مطابق ایکسپائر ہوجانے والی پیراسیٹامول، پیناڈول،وکس اور دیگر نزلہ، زکام کی ادویات سے اسمگلرز ایفیڈرین (Ephedrine ) اور ڈی ایکس ایم یعنی ڈیکسٹرو میتھورفان نکالتے ہیں جس سے ”آئس”نامی نشہ تیار کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات قارئین کے ہوش اڑا دے گی کہ نزلہ زکام کی زائدالمعیادادویات کا یہی چورا مرغیوں، مچھلیوں، گائے اور بھینسوں کی فیڈ تیار کرنے میں بھی شامل کیا جارہا ہے۔منشیات کا گھناونا کاروبار دنیا کے بدنام ترین غیر قانونی دھندوں میں سے ایک ہے۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2003ءمیں منشیات کی اسمگلنگ سے 320 ارب ڈالرز کا بزنس کیا گیا تھا اور 2016ءمیں منشیات کی اسمگلنگ سے500 ارب ڈالرز کا کاروبار ہوا۔ آئس جس کا اصل نام “میتھ ایمفیٹامین” ہے جسے مختصراََ میتھ یا کرسٹل میتھ کہا جاتا ہے۔ یہ جھاڑی نما مخصوص پودوں اور درختوں سے حاصل کئے جانیوالے ایک خاص کیمیکل کو کہتے ہیں۔ لیکن اب یہ کیمیکل مصنوعی یعنی سنتھیٹک طریقہ سے بھاری مقدار میں لیبارٹریز میں ایفیڈرین سے بھی تیار کیا جاتا ہے۔”کرسٹل میتھ ” نشے پر تحقیق کرنےوالے ماہرین کا کہنا ہے کہ” کرسٹل“ یا ”آئس“ نامی یہ نشہ ”میتھ ایمفٹامین“ نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے۔ یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر ایک کرسٹل کی قسم کی سفید چیز ہوتی ہے جسے باریک شیشے سے گزار کر حرارت دی جاتی ہے۔ اس کیلئے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ نشہ کرنے والے اسے انجکشن کے ذریعے بھی جسم میں داخل کرتے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق”آئس“ کے مسلسل استعمال سے انسان میں خوشی اور مسرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور کسی توانائی کے مشروب کی طرح جسم میں طاقت محسوس ہوتی ہے۔ ”آئس“ پینے کے بعد انسان کے اندر توانائی دگنی ہوجاتی ہے اور ایک عام شخص 24 سے لے کر 48 گھنٹوں تک جاگ سکتا ہے، اس دوران انہیں بالکل نیند نہیں آتی۔ ”آئس“ کا عادی رہنے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ اس نشے میں انسان کا حافظہ انتہائی تیز کام کرتا ہے اور اس میں بے پناہ توانائی آجاتی ہے، تاہم جب نشہ اترتا ہے تو انسان انتہائی تھکاوٹ،اکتاہٹ اور سستی وکاہلی محسوس کرتا ہے۔ یہ نشہ بالکل کوکین کی طرح کام کرتا ہے لیکن یہ کوکین سے سستا اور اس سے زیادہ خطرناک ہے۔

ایک گرام کوکین 10ہزار سے 12 ہزار روپے کے درمیان ملتی ہے جبکہ ایک گرام ”آئس“ 1500 روپے سے تین ہزار روپے میں دستیاب ہے۔ ”آئس“ کا نشہ کرنے والے اکثر افراد پاگل پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔حکومت کی طرف سے اس نشے کی روک تھام کے سلسلہ میں کوئی قابل ذکر اقدامات نہیں کیے جارہے اور نہ ابھی تک خصوصی طور پر اسے تیاراورفروخت کرنے اور نہ پینے والوں کیلئے کوئی سزا مقرر کی گئی ہے۔حیران کن بات تو یہ ہے کہ رینجرز کی تفتیش سے قبل ”ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان“ (ڈریپ) اس بات سے بے خبر تھی کہ ملک میں ”آئس ہیروئن“ کی تیاری ایکسپائرڈ پیراسیٹامول، ٹیلی نول اور نزلہ، بخار جیسی عام ادویات سے کی جارہی ہے۔ مئی 2006ءمیں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے ازخود سماعت کے دوران وفاقی اداروں کو حکم دیا تھا کہ ادویات ساز کمپنیوں کو اس بات کا پابند بنایاجائے کہ وہ اپنی کمپنی کی ایکسپائرڈ ادویات کو 15 دن کے اندر تلف کر دیں۔ تاہم اس حکم کو خاطر میں نہیں لایا گیا۔میری اس تحریرکے توسط سے حکومت وقت سے درخواست ہے کہ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے جتنی جلد ممکن ہو آئس”سمیت ہرقسم کی منشیات کے سدباب کیلئے قانون سازی کی جائے۔معاشرے سے ہربرائی ختم کرنے کیلئے سخت سے سخت سزاﺅں کی اشد ضرورت ہے۔ نیز اس کےخلاف بلا تاخیر فوری سرکاری مہم شروع کی جائے تاکہ منشیات فروش ہمارے مستقبل کے معماروں کی زندگی سے کھیلنے کی جسارت نہ کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں