کرونا وباء،حکومت اور عوام کی غیر سنجیدگی ! تحریر : یاسر فہمید

پاکستان میں کرونا وباء کے مریضوں میں اضافہ نہایت ہی الارمنگ صورتحال اختیار کر چکی ہے
اس کا پھیلاؤ روکنا بہت ضروری ہے جو کہ نظر نہیں آ رہا ۔ اس میں حکومت اور عوام کے یکساں ذمہ داری ہے مگر دونوں اس کو سنجیدہ نہیں لے رہے ۔ لاک ڈاؤن کر دیا گیا مگر اس پر مکمل عملدرآمد نہیں کرایا جا سکا اور نہ ہی ہم نے حکومتی احکامات پر کوئی سنجیدگی دکھائی ۔ شروع کے چند دن تو سب خوف میں مبتلا رہے اور احتیاط برتی مگر جوں جوں وقت گزر رہا ہے ہمارا خوف اور سنجیدگی ہوا ہو رہی ہے ۔ لاک ڈاون ناقص تھا جسے اب بتدریج ختم کرنے کا سوچا جا رہا ہے جو کہ میری نظر میں نہایت ہی غیر ذمہ دارانہ ہے ۔ حکومت کی طرف سے احتیاطی تدابیر تو بتائی جا رہی ہیں مگر ان پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے ۔ہمارے بازاروں ،شاہراہوں اور گلی محلوں میں وہی چہل پہل رہی جو عام دنوں میں ہوتی ہے ۔ان احتیاطی تدابیر ( ایس او پیز ) پر عملدامد نہ تو کسی ادارے نے کیا نہ بازاروں میں تاجر حضرات نے اور نہ ہی عوام نے ۔ ان ہدایات پر عملدامد صرف اور صرف مساجد میں نظر آ رہا ہے جو کہ سو فیصد ہے جبکہ حکومت کا زیادہ زور ہی مساجد پر تھا کہ یہاں حفاظتی اقدامات مشکل ہونگے
شروع میں حکومت کے پاس ٹیسٹنگ کٹس نہ ہونے کے برابر تھیں جس کی وجہ سے مریضوں کی تعداد کا تعین کرنا مشکل ترین مرحلہ تھا ۔جوں جوں یہ کٹس مہیا ہوتی گئیں توں توں کرونا مثبت مریضوں میں اضافہ ہوتا گیا جو روز بروز بڑھتا جا رہا ہے
دوسری طرف حکومت اس گھمبیر صورتحال میں قومی ہم آہنگی پیدا کرنے میں ناکام نظر ائی ۔ وفاق اور صوبوں میں اس وباء سے نمٹنے کے لیے ابھی تک اتفاق نہیں ہو سکا ۔ جبکہ سیاسی پارٹیاں اب بھی اس معاملے پر سیاست کرتی نظر آتی ہیں ۔سندھ حکومت اور وفاق میں ابھی تک سیاسی پوائنٹ سکورنگ جاری ہے جبکہ اپوزیشن بڑی جماعت مسلم لیگ ن بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی اور آئے روز ایک حکومتی پالیسیوں تنقید کی جا رہی ہے جبکہ ابھی تک اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو مل کر لائحہ عمل اختیار کرنے کا پیغام نہیں دیا ۔ سندھ میں جماعت اسلامی نے تاجروں کے ساتھ مل کر احتجاجی مظاہرہ کر کے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہے جبکہ سندھ حکومت لکا ڈون میں مزید سختی کا سوچ رہی ہے ۔ وفاقی حکومت لاک ڈاؤن کے حوالے سے بھی صوبوں خاص طور پر سندھ کو اعتماد میں نہیں لے سکی اور نہ ہی اس وباء سے متعلق لائحہ عمل کے لیے پارلیمنٹ کا اجلاس بلا سکی ۔
حکومت کو عوام کی مشکلات کا بھی بخوبی اندازہ ہے اور اس حوالے سے وزیراعظم پاکستان سنجیدہ کوششوں میں بھی مصروف ہیں مگر عوام کی مشکلات کے پیش نظر کاروباری سرگرمیاں شروع کرنے کا عندیہ وقت سے پہلے ہے جس کا ناقابل تلافی نقصان بھی ہو سکتا ہے ۔ عوام ایک طرف سے تو یہ کہہ رہی ہے کہ فاقوں کی نوبت آ چکی ہے مگر دوسری طرف یہی عوام کپڑوں ،جوتوں کاسمیٹکس کی بند دوکانوں کے اندر با جماعت شاپنگ کرنے میں بھی مصروف نظر آتی ہے کاروباری حضرات بھی اپنے کاروبار کرنے کے چکروں میں لاک ڈاون کی کھلی خلاف ورزی کرتی نظر آ رہی ہے ۔
اب میں آتا ہوں ایک نہایت اہم اور خطرناک صورتحال پر جس کا اتدراک حکومت کو ہوتے ہوئے بھی آنکھیں بند کیے ہوئے ہے وہ ہے اس صورتحال میں فرنٹ لائن پر لڑنے والوں میں سہولیات کا فقدان ۔ سب سے پہلی لائن ہمارے عظیم ڈاکٹرز ،پیرامیڈیکل سٹاف ۔ کرونا کا علاج کرنے میں مصروف طبی عملہ کے پاس حفاظتی کٹس اور سازوسامان میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے جس کی وجہ سے اب طبی عملہ میں کرونا وائرس کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور تعداد بڑھنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ڈاکٹرز اور سٹاف کو تین تین ہفتے لگاتار ڈیوٹی کرنے پر مجبور کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان میں وائرس موجودگی کا پتہ کئی ہفتوں بعد چل رہا ہے ۔ یہاں میں چائنہ کا زکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جہاں سے یہ وائرس ظاہر ہوا اور دنیا میں پھیلتا گیا ۔ چائنہ نے اس وبا پر اتنا جلدی قابو اس لیے پالیا کہ اس نے جو ایس او پیز بنائے اس پر چائنہ کی عوام نے من و عن عمل کیا اور حکومت نے علاج میں مصروف ڈاکٹرز و سٹاف کو ایک ہفتہ ڈیوٹی کے بعد دو ہفتوں کے لیے قرنطینہ کر دیا اور ٹیسٹ لیے گئے جن میں اگر کسی کو کرونا مثبت آیا اسے علاج کے لیے آئسولیٹ کیا گیا اور جو محفوظ رہے وہ قرنطینہ ختم کرنے کے بعد دوبارہ ڈیوٹی پر چلے گئے یہی وجہ ہے کہ چائنہ میں طبی عملہ میں کرونا وائرس کا تناسب انتہائی کم رہا اور اج چائنہ کرونا کو شکست دے کر زندگی کے معمولات میں مصروف ہے
دوسرے نمبر پر ہماری پولیس فورس ہے جو کہ اس صورتحال میں مظلوم ترین کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ڈیوٹی پر مامور پولیس اہلکار کے پاس کوئی حفاظتی لباس حتکہ ماسک تک موجود نہیں اور نہ ہی اس کی حفاظت کے لیے حکومت نے توجہ دی اوپر سے پولیس اہلکار بیس بیس گھنٹے لگاتار ڈیوٹی دے رہے ہیں اور چار سے پانچ گھنٹے آرام کے بعد دوبارہ ڈیوٹی پر پہنچا دیا جاتا ہے ۔ان کے کھانے پینے کا مناسب بندوبست نہیں کیا گیا ۔ان وجاہات کی بنا پر پولیس فورس میں کرونا وائرس پھیلتا جا رہا ہے
تیسرے نمبر پر سب سے مظلوم طبقہ صحافی ہے جو کہ بیک وقت عوام کو ہر خںر سے باخبر رکھنے کے لیے فیلڈ میں بھی موجود ہے اور لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے مگر بدقسمتی سے نہ تو ان کے ادارے ان کو کوئی سہولیات دے رہے ہیں اور نہ ءکومت کی طرف سے کسی قسم کی امداد اور حفاظتی سامان دیا گیا ہے ۔مزدور طبقہ کے بعد صحافی بھی معاشی مشکلات کا شکار ہیں مگر حکومت اور اداروں کی طرف سے انہیں کسی قسم کا معاوضہ نہیں دیا جا رہا۔ پولیس کے بعد صحافیوں اور ٹی وی چینلز میں کام کرنیوالے عملہ میں کرونا کے مریض سامنے آرہے ہیں جن کو علاج بھی اپنی جیب سے کرانا پڑ رہا ہے ۔
پاکستان میں جس تیزی سے کرونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس صورتحال میں لاک ڈاون میں نرمی کی بجائے سختی کرنے کا وقت ہے ورنہ خدانخواستہ حالات قابو سے باہر بھی ہوسکتے ہیں
اس کے لیے حکومت کو تمام صوبائی حکومتوں اور سیاسی قائدین کو اعتماد میں لے کر ایک متفقہ لائحہ عمل بنانا ہو گا اور اس پر ایک قوم بن کر قابو پانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا ۔اس نازک صورتحال میں سیاست کو قومی مفاد میں کچھ وقت کے لیے ترک کرنا ہو گا اور دنیا کو دکھانا ہو گا کہ ہم ترقی پزیر ملک ہوتے ہوئے بھی اس وباء پر قومی اتحاد سے قابو پانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں
اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہمارا حال بھی خدانخواستہ اٹلی اور سپین جیسا ہوتا نظر آئے گا
اللہ تعالی سب کو حفظ و امان میں رکھے

اپنا تبصرہ بھیجیں