تقطہ چینی کریں مگر پذیرائی بھی بنتی ہے، تحریر: مہرین جمیل

حکومت وقت کوئی بھی کام کرے سب کی اس پر نظر ہوتی ہے ، خواہ عوام ہو یا اپوزیشن ،عوام دیکھ رہی ہوتی ہے کہ ہمیں ریلیف کیا ملے گا اور اپوزیشن حکومت کی غلطی یا کوتاہی پر نظر رکھتی ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہئے کیوں کہ یہ جمہوری عمل کا حسن ہے ۔
لیکن 2018 میں جو حکومت تبدیلی کے نام پر بنی اس پر سب کی کڑی نظر ہے خاص طور پر اپوزیشن کی، ہربات اور ہر لفظ کی بال کی کھال اتاری جاتی ہے ، سوالات کا انبار لگ جاتا ہے۔ کب ؟ کہاں ؟ کیسے ؟ کیوں ؟ کس لئے ؟ ان سوالات کے جوابات دینے والا تو دور سننے والا بھی سمجھ جاتا ہے کہ کہیں کچھ درد ہے ۔
کچھ دن پہلے وزیر اعظم نے چند صحافیوں کو انٹر ویو دیا جو کہ سب کے لئے مسئلہ بن گیا۔ چار اہم باتوں پر بحث شروع ہو گئ
1۔ ڈالر کی قدر میں اضافے سے وزیر اعظم لا علم ہیں ۔
2۔ صوبے کے قیام کے لئےجلد الیکشن کی بات ۔
3 ۔چیف جسٹس کے ریمارکس پر افسوس کا اظہار
اور فوج حکومت کے ساتھ ہے یہ کیوں کہا ۔
چلیں لوگوں کی مشکل حل کرتے ہیں ان سب باتوں کو آسان کئے دیتے ہیں کی مکمل بات تھی کیا اور جواب کیا ہے ۔کیوں کہ آدھی بات پتہ ہونا بھی خطرناک ہے بالکل ویسے ہی جیسے نیم حکیم خطرہ جان ۔
اسٹیٹ بنک ایک خود مختار ادارہ ہے اور وہ اپنی مرضی سے فیصلہ کر سکتا ہے جس دن حکومت کے سو دن پورے ہوئے اس کے بعد اچانک ڈٖالر کی قیمت بڑھنے سے حکومت کا لنک نہیں وجہ یہ ہے کہ جناب، اس کے بعد اسٹیٹ بنک نے مانٹیری پالیسی بنائی تھی جس کی وجہ سے ڈالر نے اونچی اڑان بھری ۔ ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ ہمارے ادارے خود مختار ہو رہے ہیں اور اب اپنے فیصلے خود کرتے ہیں نا کہ ہاتھ باندھ کر وزیر اعظم کہ سامنے کھڑے ہو جائیں کہ حکم کیجئے عالی جاہ! اب کیا کیا جائے؟
رہی بات جلد انتخابات کی تو وہ سوال یہ تھا کہ اگر الگ صوبہ بنتا ہے تو جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کی اکثریت ہے لیکن باقی کیا ہو گا کیوں کہ پنجاب میں پہلے ہی ن لیگ کا بول بالا ہے ۔اس پر وزیر اعظم نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ صوبے کے لئے جلد الیکشن ہو جائیں نا کہ وزیر اعظم نے یہ کہا کہ ہم سے حکومت نہیں ہو رہی اور نا ہی ان کا مطلب یہ تھا کہ میرے پاس حکومت ختم کرنے کا اختیار ہے ۔
کچھ لوگ اس بات کو زرداری کے بیان کے ساتھ جوڑ رہے ہیں کہ انہوں نے بھی کہا ہےکہ حکومت جلد ختم ہو جائے گی۔ تو صاحب ، کونسی اپوزیشن ہے جو یہ کہتی ہے کہ حلومت بہت اچھی چل رہی ہے اسے ایسے ہی چلنے دیں ، ایسا نہیں ہوت،ا اپوزیشن کا کام ہے حکومت پر تنقید کرنا۔
پھر چیف جسٹس کے ریمارکس کی بات کریں تو وزیر اعظم نے پانامہ اور باقی کیسز میں چیف جسٹس کی کھل کر تعریف بھی کی، ہاں سی ایم پنجاب عثمان بزادر اور زلفی بخاری کے کیس میں ریمارکس پر شکوہ کیا کہ سی ایم پنجاب کے ماتحت تمام ادارے ہیں وہ لوگوں سے جواب طلب کر سکتے ہیں یہ کوئی غیر قانونی بات نہیں اور زلفی بخاری کے ساتھ اقربا ء پروری کی تنقید کے جواب میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ زلفی بخاری میرے ساتھ میرٹ کی بنیاد پر ہیں۔
بلا شبہ چیف جسٹس صاحب کسی بھی معاملے پر نوٹس لے سکتے ہیں تو کیا وزیر اعظم ریمارکس دینے کے بھی اہل نہیں ہیں ؟
اپوزیشن کی جانب سے سب سے زیادہ تنقید اس بات پر کی گئی کہ فوج پی ٹی آئی کے ساتھ ہے یہ کیوں کہا گیا ،ہم تو پہلے ہی کہہ رہے
تھے کہ پی ٹی آئی کی کامیابی کا سہرا خلائی مخلوق کے سر جاتا ہے۔
لیکن ایسا کہنے والے شاید بھول چکے ہیں کہ
فوج ہمارا وہ ادارہ ہے جس نے ہر برے وقت میں پاکستان کے لوگوں کا ساتھ دیا اور یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے اور یہ بھی بتانے کی ضرورت ہر گز نہیں کہ فوج نے ملک کے لئے کیا کچھ کیا ۔اگر آج فوج، حکومت اور عدلیہ ایک پیج پر ہیں تواس میں برا ئی کیا ہے ؟
پاکستان کے دفاع سلامتی اور معشیت کے استحکام کے لئے ان کا ساتھ ہونا ایک خوش آئند بات ہے نا کہ قابل تشویش ، ہاں اگر حکومت کچھ ایسا کرے جو ملکی مفاد میں نہیں تو پھر فوج حکومت کا ساتھ دے تو یقینا یہ بات قابل مذمت ہے ۔
پارٹی کوئی بھی ہو خواہ مسلم لیگ نون ، پاکستان پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف اور اگر وہ ملک کی بہتری کے لئے کام کر رہی ہے اور فوج انکا ساتھ دےتو میرا نہیں خیال کہ پاکستانی ہونے کے ناطےہمیں کوئی اعتراض ہونا چاہیئے ۔
ہمیں تو اس تبدیلی کا خیر مقدم کرنا چاہئے جہاں ہمارا وزیرعظم سچ بولے اور کہے کہ یہ سچ ہے اور یہ جھوٹ ۔
جب ہمارے وزیر اعظم بتا رہے ہیں کہ مجھے اس بات کا علم نہیں یا یہ بات مجھے پسند نہیں آئی یا ہم وقت کے مطابق اپنی پالیسی کو تبدیل کریں گے تو بتائیے غلط کیا ہے ؟
تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے جو قومیں وقت کے ساتھ خود کو تبدیل نہیں کرتیں وہ خود ساختہ اصولوں کی بوسیدہ زنجیروں میں جھکڑی رہتی ہیں اور بلا شبہ بہت پیچھے رہ جاتی ہیں ۔
عمران خان نے سو دن کا پلان دیا بظاہر تین مہینوں میں کوئی بڑی یا اہم تبدیلی نظر نہیں آئی ہاں ابھی صرف سمت کا تعین ہو اہے پھر بھی حکومت کی ہمت کا اندازہ لگائیں کہ انہوں نے سو دن کے ایجنڈے کے حوالے سے خود کو احتساب کے لئے پیش کیا اور کہا کہ آئیں ہمارا حساب لیں ۔ بتائیں اس سے پہلے کس حکوت میں اتنا دم خم تھا کہ اپنی مدت پوری کرنے کے بعد بھی خود کو عوام یا اداروں اک جواب دہ سمجھے، اور کون تھا جو بادشاہ سلامت سے سوال کر سکتا تھا ؟
آج تک ہم نے یہی دیکھا کہ صرف پارٹٰی ورکر ہی اپنے لیڈر کے لئے لڑتا مرتا اور جان کا نزرانہ پیش کرنے سے دریغ نہیں کرتا اور پانامہ کیس کی ہر سماعت کے بعد مسلم لیگ ن کے ورکرز اور وزیر جو میڈیا ٹالک کرتے تھے اور جو کچھ بولتے تھے وہ اس بات کی بہترین مثال ہے
یہ پہلا لیڈر ہے جو اپنے ورکرز اور اپنے وزیروں کے لئے لڑتا ہے اور بات کرتا ہے انکے اچھے اور برے کاموں کی۔
سی ایم پنجاب ہوں یا زلفی بخاری وہ سب کی بات کرتے ہیں ورنہ عثمان بزدار کے آنے پر اپوزیشن نے انہیں کس طرح تنقید کا نشانہ بنایا تھا ہم سب جانتے ہیں، لیکن وزیر اعظم ان کو ساتھ لے کر چلے کیوں کہ ایک لیڈر ہی مزید لیڈ ر بناتا ہے اور اپنے ساتھ چلنا سکھاتا ہے اور الیکشن مہم میں زلفی بخاری نے کیسے الیکشن مہم چلائی یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ کیا ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ جو کام کرے اس کو اس کی محنت کا پھل بھی ملے ؟
مذہبی انتہا پسندی پر عمران خان نے جیسے ایکشن لیا وہ یقینا قابل ستائش ہے لیکن اپوزیشن ہر چیز ہر نقطے کو تنقید کا نشانہ نا بنائے تنقید ضرور کریں، کھل کے نا سہی پر تھوڑی بہت پذیرائی تو بنتی ہے ۔ تنقید کرتے وقت شاید اپوزیشن یہ بھو ل جاتی ہے کہ ساس بھی کبھی بہو تھی۔


مہرین جمیل سپیرئیر یونیورسٹی سے ایم فل کرنے کے بعد صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور ان دنوں روہی نیوز چینل میں بطور نیوز اینکر کام کررہی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں