روشنی اور گھٹن، تحریر: ثناء آغا خان

اگر تعلیمی ادارے ہی تعفّن اور گھٹن کا مرکز ہوںگے توہمارے مستقبل کا کوئی معیار نہ رہے گا ۔گذشتہ ماہ سوشل میڈیا پر متعدد طلبہ نے تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے واقعات پر آواز اٹھائی۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے والدین میں ان معاملات پر خود بچوں سے بات کرنے کی سمجھ بوجھ کم ہوتی ہے، اسی لیے بچوں کو گھر سے باہر مدد تلاش کرنے پڑتی ہے۔بچوں کو اپنے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسانی بیان کرنے نہیں آتی اس لیے وہ شرمندہ ہو کر اسے اپنی غلطی سمجھ لیتے ہیں اور کسی سے بھی بات نہیں کرتے۔ ان کے مطابق تھیراپی کے دوران اکثر بڑی عمر کے افراد بھی اسی کشمکش سے دو چار ہوتے ہیں۔
پاکستان کے تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کو اپنے اساتذہ سے ہراسمنٹ کا سامنا اکثروبیشتر کرنا پڑتا ہے۔ استاد جو ایک روحانی باپ کا درجہ بھی رکھتا ہے وہ یہ بھول جاتا ہے کہ طالب علم انکی اولاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے لڑکوں کے ساتھ برابری کے چکر میں لڑکیاں ہر اس حد کو پار کرجاتی ہیں جو آگے چل کر ان کے لیے بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کی طالب علم نادیہ اشرف کی خود کشی نے پاکستان کے تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے معیار پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ خود کشی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ چند سال پہلے لاہور کے ایک نجی کالج کے طالب علم نے اس وقت اپنی ذندگی کا خاتمہ کرلیا جب رزلٹ آنے پر وہ فیل ہوگیا۔ والدین نے بیٹے کی موت کے بعد ری چیکنگ کی درخواست کی ۔ ری چیکنگ مکمل ہونے کے بعد جب رزلٹ تیار ہوا وہ طالب علم ٹاپ کرچکا تھا۔ مزید تحقیق ہوئی تو پتا چلا کہ وہ لڑکا کلاس میں سب سے زیادہ ذہین تھا اور اساتذہ کے ساتھ اکثروبیشتر مکالمہ میں وہ اساتذہ کو چُپ کروا دیتا تھا جسکا غصہ اسکے رزلٹ پر نکالا گیا۔
اساتذہ کرام طلبہ کے روحانی باپ ہوتے ہیں لیکن بڑی تعجب کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ استاد طلباء و طالبات کے ساتھ جنسی ہراسگی اور غیر انسانی رویے سے پیش آتے ہیں ـ اگر چہ تعلیمی اداروں میں اساتذہ طلبہ کو گریڈنگ کے نام پر بلیک میل اور پتہ نہیں کیا کیا کرواتے رہتے ہیں تو بحیثیت طالب علم اس غیر انسانی عمل کے خلاف آواز بلند کرنا ہماری اخلاقی فرض بنتا ہےـ
امید تو یہی کی جاتی ہے کہ اساتذہ اپنے رتبے اور بنیادی مقصد سے واقف رہیں گے۔ اس منظر عام کو دیکھ کر ایک فلاسفر کا قول یاد آتا ہے کہ “یہ بد بخت تعلیم نہ ہوتا تو اچھا ہوتا ہے جو کہ سماج کے لیے ایک وبال جان ہے جس کی بناء پر درندگی، پریشانی، ظلم اور قتل و غارت جیسی عناصر پھیل رہی ہیں۔”
کراچی یونیورسٹی کی طالبہ کی خود کشی اور کاغذ پر لکھے اسکے آخری الفاظ کہ ”ڈاکٹر اقبال چوہدری میری پی ایچ ڈی نہیں ہونے دے گا“نے اس وقت پورے پاکستان کو جھجھوڑ کررکھ دیا ہے۔ نادیہ اشرف کی خود کشی کی خبر سن کر مجھے فورا ایک واقعہ یاد آگیا جسکا زکر اوپر کرچکا ہوں ۔ میرا ایک کلاس فیلو لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی سے ایم فل کررہا تھا۔ ایک دن تمام دوست کھانے پر اکٹھے ہوئے تو گپ شپ کے دوران اس نے ایم فل کو مکمل کرنے کے طریقے بتائے۔ باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ اسکی کلاس کی ایک لڑکی تھی جو تھیسز کررہی تھی۔ اسکا سپروائزر جسکی عمر پچاس سال ہوگی اسکی خواہش تھی کہ تھیسز مکمل ہونے تک یہ لڑکی میرے بیڈ روم تک آجائے۔ سپروائزر نے اسے میسجز کرنے شروع کیے ، لڑکی جتنا کام کرکے آتی اسکا کام ریجیکٹ کردیا جاتا۔ کچھ عرصہ بعد جب لڑکی تنگ آگئی تو اس نے پوچھا کہ سر معاملہ کیا ہے ؟ جسکے جواب میں سر نے کہا کہ کلاس کے بعد میرے آفس میں آکر مجھے ملو سب سمجھا دوں گا۔ کلاس کے بعد لڑکی اسکے آفس میں گئی ، سر نے چائے آفر کی اور باتوں باتوں میں اپنی خواہش کا اظہار کردیا کہ اگر وہ یہ کام کرنے کو تیار ہے تو اچھے نمبروں کے ساتھ پاس بھی کروں گا اور تھیسز بھی بہترین ہوگا بلکہ وہ خود تھیسز تیار کرے گا۔ تین سے چار دن تک لڑکی سوچتی رہی اور بالآخر سپروائزر کی بات ماننے کو تیار ہوگئی۔اپنی ہوس پوری کرنے کے بعد اگلے دن لڑکی نے میسج کیا ، جسکے جواب میں سپروائزر صاحب نےگھٹیا قسم کے میسجز کرکے اسے اور شرمندہ کیا ۔اس لڑکی نے وہ میسجز تمام کلاس فیلوز کو پڑھائے تاکہ اسکے ساتھ کھڑا ہوسکیں اور سپرائزر کے خلاف انتظامیہ میں شکایت کرسکیں ، لیکن بدقسمتی سے کوئی ایک طالب علم بھی اسکی حمایت میں کھڑا نہ ہوا اور شرمندگی کے مارے اسے ایم فل چھوڑ کر جانا پڑا۔
خواتین کے ہراسگی سے تحفظ کے لیے قائم وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر میں سنہ 2016 میں 77 کیسز رپورٹ ہوئے اور 2017 میں 88 کیسز سامنے آئے۔
ہمارا نظام تعلیم زوال کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔مرد اساتذہ کی طرف سے گریڈز اور نمبروں کے نام پر طالبات کا استحصال ایک کھلی حقیقت ہے جس کا اظہار وقتاََفوقتاََمختلف فورمز پر ہوتا رہتا ہے۔ زیادہ تر واقعات پر طالبات بیچاری خاموشی میں عافیت سمجھتی ہیں ۔ اگر کوئی اظہار کی جرأت کر بیٹھے تو ایسے میں مؤردِ الزام شکایت کنندگان ہی کو ٹھہرایا جاتاہے یا پھر کمیٹیاں بناکر معاملہ فائلوں کی نذر کردیا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ کوئی فرضی سی کارروائی کر کے متأثرہ فریق کامنہ بند کر دیاجاتاہے۔ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے اساتذہ اور منتظمین کڑے وقت میں ایک دوسرے کے خوب کام آتے ہیں ۔ بھلا اس طرح کے جرائم پورے اعتماد و تیقّن کے ساتھ باہمی گٹھ جوڑ کے بغیر کیوں کر رُونما ہوسکتے ہیں؟

اکتوبر 2017 میں شروع ہونے والی ’می ٹو‘ مہم کے واضح اثرات 2018 کے اعداد و شمار میں دکھائی دیتے ہیں۔ 2017 کی نسبت 2018 میں جنسی ہراسانی کے رپورٹ ہونے والے کیسز میں 309 فیصد اضافہ ہوا۔

2018 میں 272 کیسز سامنے آئے جبکہ 2019 میں 366 افراد نے جنسی ہراسانی کی شکایت درج کروائی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں