قارئین کو ترستا ابلاغ عام کا سب سے پرانا ذریعہ “اخبار”، ماہرین ابلاغیات کی آراء پر مشتمل ایک تحریر

ابلاغِ عامہ کا سب سے پرانا ذریعہ ”اخبار“ آج دنیا بھر میں قارئین کو ترس رہا ہے۔ ریڈر شپ کی بے رخی کئی ایک نامور بین الاقوامی اخبارات اور میگزینز کی اشاعت (طباعت شدہ) کی بندش پر منتج ہوئی ہے۔ جدید ابلاغی ٹیکنالوجی نے ترقی یافتہ دنیا میں اخبارات پڑھنے والوں کو پرنٹ سے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کی طرف منتقل کردیا ہے۔ پاکستان جہاں اخبار بینی آغاز سے ہی کوئی قابلِ رشک صورتحال کی حامل نہیں تھی۔ خواندگی کی ہانپتی کانپتی شرح، غربت اور ٹرانسپورٹیشن انفراسٹرکچر اور سہولیات کی کمی نے ملک میں اخبارات کو پنپنے ہی نہیں دیا ۔ اس پر ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کی آمد نے رہتی سہتی کسر کو بھی پورا کر دیا ہے۔ اگرچہ جدیدیت کا یہ اثر ابھی ترقی یافتہ دنیا کے مقابلے میں ہمارے ہاںقدرے کم ہے۔لیکن اخبارات پر سرکاری، مالکان اور عوامی خصوصاً نوجوانوں کی عدم توجہی نے اِسے دوچند کردیا ہے۔ جس کا اندازہ کیسے لگایا جائے۔ یہ ایک مشکل سوال ہے کیونکہ ہمارے ہاںاخبارت کی ریڈرشپ اور سرکولیشن کے حوالے سے مستند اعدادوشمار کی کمی ہے۔ اخبارات کتنے چھپتے ہیں؟ کتنے بکتے ہیں؟ ان سوالات کا حقیقی جواب ابھی پردوں میں ہے۔ جبکہ ریڈر شپ کے رجحانات کو مانپنے کی کبھی کوئی شعوری کو شش حکومتی اداروںاور اخباری تنظیموں کی جانب سے کی ہی نہیں گئی۔ جس کی وجہ سے اس حوالے سے دیگر ذرائع پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ جن میں سے ایک گیلپ پاکستان بھی ہے۔

1985 میں  گیلپ کے ایک سروے کے نتائج ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ اُس وقت ملک کے19 فیصد لوگ روزانہ اخبارات پڑھتے تھے اور10 فیصد گھرانے اخبارات خریدتے تھے۔ اس کے علاوہ آسٹریا کے انسٹی ٹیوٹ فار کمپیریٹیو سروے ریسرچ کے ورلڈ ویلیو سروے6 جو کہ پوری دنیا میں2010 سے2014 کے دوران ہوا۔ اُس کے مطابق 2012 میں پاکستان کے11.6 فیصد لوگ روزانہ اخبارات پڑھتے تھے اور17.8 فیصد ہفتہ میں ایک بار اخبار بینی کرتے تھے۔ ہفتہ وار اخبارات پڑھنے والے مرد وں کا تناسب 24.4 فیصد اور خواتین 10.7 فیصد تھا۔ اب پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2017-18 کے مطابق صورتحال یہ ہے کہ ملک کی 15 سے49 سال کی شادی شدہ خواتین   (Ever Married Women )      کا5.1 فیصد اور عمر کے اِسی گروپ کے مذکورہ ازدواجی حیثیت کے حامل مردوں (Ever Married Men)  کا 27.1 فیصد ہفتہ میں صرف ایک بار اخبار پڑھتے ہیں۔

اخبارات کی ریڈر شپ کی یہ دم توڑتی صورتحال ملک میں مطبوعہ اخبارات و رسائل میں کمی کا موجب بھی بن رہی ہے ۔جو کبھی بہت حوصلہ افزاءتھی جس کا اندازہ یونیسکو انسٹی ٹیوٹ فار اسٹیٹسٹکس کے ڈیٹا بینک سے لیے گئے اعدادوشمار کے تجزیہ سے یوںہوتا ہے کہ 2004 میں روزنامہ اخبارات کی تعداد (Daily newspapers number of titles)  کے حوالے سے پاکستان دنیا کے 160ممالک (جن کے اس حوالے سے اعداوشمار دستیاب ہیں)  میں 291 کی تعداد کے ساتھ 7 ویں نمبر پر تھا۔اسی طرح مذکورہ سال پاکستان دنیا بھر میں روزنامہ اخبارات کی دسویں بڑی سرکولیشن  ( Daily newspapers total average circulation )  کا حامل تھا۔لیکن پھر صورت حال یہ ہوئی کہ وطن عزیز میں 2009 تا2018 کی دہائی کے دوران تمام طرح کے طباعت شدہ اخبارات و رسائل کی تعداد میں آدھی کمی واقع ہوئی جو 1039 سے کم ہوکر695 پر آگئی ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق2018 تک پاکستان میں تمام طرح کے مطبوعہ اخبارات ورسائل کی مجموعی تعداد 695 تھی جس کا 57.4 فیصد (یعنی 399)  روزنامہ اخبارات پر مبنی تھا۔

اخبارپڑھنے کے رجحان میں اضافہ کے لیے خواندگی کی شرح میں بہتری مرکزی حیثیت کی حامل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اکنامک سروے آف پاکستان 2017-18 کے مطابق 2015-16 تک ملک میں شرح خواندگی 58 فیصد تھی۔وفاقی اداہ شماریات کے اعدادوشمار کے تجزیہ سے ایک دلچسپ حقیقت بھی سامنے آئی ہے ۔ وہ یہ کہ ملک کے آدھے سے زائد یعنی52.3 فیصد( تعداد364) اخبارات و رسائل کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ جبکہ ملک کے سب سے زیادہ روزنامے بھی بلوچستان سے نکلتے ہیں جن کی تعداد 176 ہے جو روزناموں کی ملکی تعداد کا 44 فیصد بنتا ہے۔ لیکن ملک میں خواندگی کی سب سے کم تر شرح بھی بلوچستان کی ہے جو 41 فیصد ہے۔

اس تمام صورتحال میں ملک میں مطالعہ اور اخبار بینی کے رجحان کے فروغ کے لئے آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (اے پی این ایس ) نے 25 ستمبر کو ”اخبار بینی کے قومی دن“ کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ اس روز کا انتخاب 25 ستمبر1690 کو امریکا سے شائع ہونے والے پہلے ملٹی پیپر ”Public Occurrences “کی اشاعت کی مناسبت سے کیا گیا ہے۔ اس دن کو منانے کا ایک خصوصی مقصد نوجوانوں میں اخبار بینی کے رجحان میں اضافے کے لئے کوششیں کرنا ہے۔ اس قومی دن کے تناظر میں پاکستان میں ابلاغیات کی تعلیم سے وابستہ ممتاز اساتذہ اور صحافیوں کا اخبارات کو ریڈر شپ کے حوالے سے درپیش چلینجز کی مناسبت سے ایک ملک گیر سروے کیا گیا جس میں درج ذیل سوالات تمام شخصیات سے پوچھے گئے ۔

س1 ۔ کیا پاکستان میں اخبارات کی ریڈرشپ میں کمی واقع ہورہی ہے؟

س 2 ۔ کہا جاتا ہے کہ آج اخبارات کی اکثریت غیر جانبدار نہیں رہی ۔آپ اس بات سے کس حد تک متفق ہیں؟کیا اخبارات کا جانبدار ہونا اس کی ریڈر شپ کومتاثر کرتا ہے؟

س3 ۔ نیوز چینلز نے اخبارات کے معیار اور اُس کی ریڈرشپ پر کتنا اثر ڈالا ہے؟

س 4 ۔ آج اخبارات کی ترجیح اشتھار ہے نا کہ قاری۔ آپ کیا کہتے ہیں؟

س 5 ۔ کیاملک میںصحافیوں کو درپیش مالی اور سیکورٹی کے مسائل بھی اخبارات کی ریڈر شپ کی کمی کا باعث بن رہے ہیں؟

س6 ۔ ڈیجیٹل میڈیا نے اخبارات کی ریڈر شپ کو کس حد تک متاثر کیا ہے؟

س 7 ۔ کیا قارئین اب پرنٹ سے آن لائن اخبارت کی طرف منتقل ہورہے ہیں؟

س 8۔ مالکان اب اخبارات کی نسبت نیوز چینلز پر زیادہ توجہ اور وسائل صرف کرتے ہیں۔ کیا ایسے طرز عمل کا براہ راست اثراخبار کے مندرجات کے تنوع اور معیارپر نہیں پڑھ رہا ؟ جس سے بلا ٓخر اخبار کی ریڈر شپ متاثر ہوتی ہے؟

س 9 ۔ ملک میں اخبارات کی ریڈر شپ کو کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے؟

ان سوالات کے جوابات کی تفصیل قارئین کے لیے پیش کی جارہی ہے۔

 پروفیسرڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر، چیئرپرسن، شعبہ ابلاغیات جامعہ کراچی

ج1 ۔ پاکستان میں اخبارات کی ریڈر شپ ویسے ہی کوئی قابلِ رشک نہیں ہے۔ نوجوان جو ہمارا سب سے بڑا طبقہ ہے جس کے اوپر ہم سب سے زیادہ انحصار کرتے ہیں جو معاشرے میں Trend  سیٹ کرتا ہے یا تبدیل کرتا ہے۔ہمارا چونکہ زیادہ واسطہ اِن سے پڑتا ہے اور شعبہ بھی ہمارا ایسا ہے کہ ہمیں اسٹوڈنٹس کو بہت زیادہ تاکید و تلقین کرنی پڑتی ہے کہ وہ اخبارات پڑھیں لیکن یہ ایک بہت افسوس ناک حقیقت ہے کہ نوجوانوں میں اخبارات پڑھنے کا رجحان واقعی بہت کم ہو گیا ہے۔

ج 2 ۔ دیکھئے اخبار کا جانبدار ہونا اُس کی ریڈر شپ اور مجموعی طور پر اُس کے بارے میں جو  Image  ہے اُس کو یقینا متاثر کر تا ہے۔ صحافی معاشرے میں ایک محافظ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ معاشرے کے تمام اداروں اور ریاست کے تمام ستونوں کی کارکردگی پہ ایک غیر جانبدارانہ نظر رکھتے ہیںاور عام عوام کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔ لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آج کا صحافی جس کا کردار ایک ریفری کا ہونا چاہیے وہ کھیل کا فریق بن چکا ہے۔ بغیر کسی ضمیر کی خلش کے اور بغیر کسی الجھن کے وہ اس کا بر ملا اظہار بھی کرتا ہے۔ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا میں جہاں آپ کو ایک جانب یا دوسری جانب اینکر پرسن کا واضح جھکاﺅ دیکھائی دے گا۔ اور پہلے سے آپ کو یہ پتا ہوگا کہ اس موضوع کے اوپر میزبان کا نقطعہ نظر کیا ہوگا۔ تو میرا اپنا خیال تو یہ ہے کہ اگر اخبار ہو یا ٹیلی ویژن کا چینل اگر وہ جانبداری کی اس حد کو چھونے لگے گا تو یقینا اُس کی مقبولیت کا گراف نیچے آئے گا۔ اس لئے وہ اخبارات جو اس زمانے میں بھی کسی حد تک Objectivity  کا خیال رکھتے ہیں خاص طور پر رپورٹنگ میں اور خبروں کو ممکنہ حد تک غیر جانبداری کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کے بارے میں پسندیدگی یقینا زیادہ ہو گی بانسبت اُن کے جو یک طرفہ بنیادوں پر خبریں دیتے ہیں۔

ج3 ۔ جہاں تک اخبار کے معیار کا تعلق ہے تو اُسے مقابلہ درپیش ہے بہت سخت۔ پہلے لوگ24 گھنٹے انتظار کیا کرتے تھے کہ اخبار آئے گا اور اُنھیں خبریں ملیں گی۔ لیکن اب آپ جس وقت چاہیںتازہ ترین خبریں دیکھ سکتے ہیں۔تو اخبارات کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج ہے کہ ایک ایسے زمانے میں جہاں انٹرنیٹ، ڈیجیٹل میڈیا، ٹی وی اور ریڈیو جیسے تیز رفتار کمیونیکشن کے ذرائع موجود ہیں وہ اپنی ریڈر شپ کو برقرار رکھے۔ اس کے لیے اخبارات کو کچھ ایسے اقدامات اور اپنے کام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس سے قارئین کی دلچسپی برقرار رہے ورنہ بنیادی خبریں تو اُنھیںسارا دن ملتی رہتی ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی یا بڑی سے بڑی اطلاع لوگوں کے پاس اخبار سے پہلے پہنچ چکی ہوتی ہے۔

ج4 ۔ جی یہ تو ایک بہت تکلیف دہ Phenomena   ہے اس کے بارے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ میں آپ کو آج سے کوئی 25 تیس سال پرانی بات بتاﺅں ۔میں نے کہیں پڑھا کہ ایک وقت آئے گا کہ جب اخبار کے ایڈیٹر کی جگہ اس کا مارکیٹ مینیجر لے لے گا۔ تو ہمیں یقین نہیں آیا کہ کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ مدیر جو اتنا اہم آدمی ہے او ر اخبار کابنیادی ستون ہے اور جس کی فکر اور سوچ پر پورے اخبار کی زندگی کا انحصار ہے اُس کی اہمیت کو کوئی اور پورا کرے گا ۔لیکن آپ یہ دیکھیں کہ ہم منڈی کی دنیا میں رہتے ہیں منڈی کی معیشت ہے۔اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ مارکیٹ فورسز Content   کو  Dominate  کر رہی ہیں۔ جس نے مندرجات پر بہت ہی برا اثر مرتب کیا ہے اور مالکان کا نقطعہ نظر بھی یہی ہے کہ جو چیز بکتی نہیں ہے اُس کو چھاپا کیوں جائے خواہ اُس کی اخلاقی اور سماجی ذمہ داری کے اعتبار سے کتنی ہی زیادہ ضرورت کیوں ہی نا ہو۔ تو یہ  Phenomena  تو سامنے آگیا ہے اور یہ بہت تکلیف دہ ہے میرا خیال ہے اس نے اخبارات کے معیار کو بہت متاثر کیا ہے۔

ج5 ۔ دیکھیں اخبارات نے اپنے اسٹاف کی تعداد میںبہت زیادہ کمی کی ہے اور وہ اب کوشش کر رہے ہیں کہ کئی شہروں سے نکلنے والے اپنے اخبار ات کے لیے ایک ڈیسک بنا دیا جائے۔یعنی اخبار بنایا کہیں ایک جگہ پر جائے اور چھاپا دوسرے شہروں میں جائے۔ تو ظاہر ہے اس سے معیار پر تو اثر پڑے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معیار اُن کا مسئلہ ہے یا صرف اخبار چھا پنا۔ تو اخبار تو چھاپنا ہے کیونکہ اشتھار چھاپنا ضروری ہے۔ یہی اُن کا نقطعہ نظر ہے اور وہ اس سے مطمئن ہیں۔ میڈیا میں آنے والے موجودہ مالی بحران کے پیش نظر اخبارات نے جو اقدامات کیے ہیں اس سے اخبار اور رپورٹنگ کا معیار متاثر ہوا ہے۔ کیونکہ جب ایک رپورٹر کئی ایک Beats   کررہا ہوگا تو اُس کی رپورٹنگ میں وہ جان تو نہیں رہے گی جو اُس کی اپنی Beat   جس کا وہ ماہر ہے اُس میں رہی ہوگی۔

ج6 ۔ اس وقت بہت سارے خصوصاً انگریزی اخبارات میں یہ بات طے شدہ ہے کہ اُن کی ڈیجیٹل سائیٹ یعنی ویب نیوز پیپر چھپے ہوئے اخبار کی نسبت زیادہ پڑھا جارہا ہے۔ اس لیے ڈیجیٹل سائٹس پر اخبارات کی زیادہ توجہ مرکوز ہوگئی ہے ۔ یہاں تک کہ ٹیلی ویژن چینل بھی اپنی ڈیجیٹل سائٹس کو بہت  Active  رکھتے ہیں اور اس پر توجہ دیتے ہیں۔ تو میرے خیال میں بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔

ج7 ۔ بالکل ہو رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ جو آسانی اور ورائٹی آپ کو مل رہی ہے آپ کتنے اخبار خرید کر پڑھ سکتے ہیں ۔ انٹرنیٹ اب آسانی سے دستیاب ہے اتنا مہنگا کنکشن بھی نہیں ہوتا۔ لوگوں کے پاس کافی زیادہ سہولتیں ہیں وہ چلتے پھرتے موبائل فون پر پڑھ سکتے ہیں ۔لوگوں کے پاس ایک دنیا کھلی پڑی ہے دنیا کے جس کونے کا چاہیں وہ اخبار پڑھ سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل  Phenomena  نے آکر چھپے ہوئے اخبارات کی مقبولیت کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ ج8 ۔ ظاہر ہے بالکل پڑ رہا ہے کیوں نہیں پڑ رہا۔ جب آپ توجہ اور وسائل دونوں اخبار پر سے کم کر دیں گے۔ اور کوشش کی جائے کہ ایک ہی ڈیسک کئی ڈیسکس کا کام دیکھے یا ایک ہی فرد کئی جگہ پر کام کرے ۔ شارٹ سائزنگ کا ہونا ، اخبارات میں تنخواہوں کا بہت کم ہوناتو ان سب کا یہ فطری نتیجہ ہے کہ معیار پہ اس کا اثر پڑے گا۔ جب معیار متاثر ہوگا تو ریڈر شپ پر بھی اثر پڑے گا۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے اخبارات کے لیے ۔ عام طور پر یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ اخبارات دم توڑ رہے ہیں۔ تو وہ کوئی محض مبالغہ آرائی نہیں ایسا بالکل حقیقت میں ہے کہ اگر یہی عالم رہا تو چھپے ہوئے اخبارات کی زندگیوں کو یقینا شدید خطرات لاحق ہیں۔

ج9۔ دیکھئے اخبارات کی ریڈر شپ بڑھانے کا سب سے بنیادی طریقہ یہ ہے کہ آپ خواندگی کی شرح کو بڑھائیں۔ لکھنے پڑھنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا تو اخبارات کے پڑھنے والوں کی تعداد بڑھے گی۔ اخبارات پڑھنے کے لئے آپ میں ایک خاص طرز فکر اور احساس کا ہونا ضروری ہے۔اور وہ تعلیم کے ساتھ بہت گہرے طور پر جڑا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ اخبارات کو وسائل چاہیے صلاحیتوں کی ضرورت ہے نئے لوگ اُسے درکار ہیں ۔زندہ رہنے کے لئے اُسے نئے خون کی ضرورت ہے ۔ یہ سب آپ اگر فراہم کریں گے تو اخبارات کی ریڈرشپ بھی بڑھے گی اس کی سرلوکیشن بھی بہتر ہوگی اور اخبارات میں کام کرنے والوں کی لگن اور دلچسپی میں بھی اضافہ ہوگا۔

ڈاکٹر نوشینہ سلیم،ڈائریکٹر، ادارہ علومِ ابلاغیات، جامعہ پنجاب ، لاہور

ج1 ۔ جی بالکل جب سے ڈیجیٹل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا مارکیٹ کے اندر آئیں ہیںتو بہت واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اور آج کا ریڈر جو کہ نوجوان ہے وہ بالکل شفٹ کر گیا ہے ڈیجیٹل میڈیا پر۔ وہ سوشل میڈیا پر اخبارات پڑھ رہے ہیں وہ بھی صرف نیوز کی حد تک۔ خبر کے متن کی تفصیل میں وہ نہیں جاتے اور خبر کی ہیڈ لائن تک محدود ہو چکے ہیں۔جو 40 سال سے اوپر کے لوگ ہیں اور اُنھیں اخبار بینی کا شوق ہے وہ اخبارات پڑھتے ہیں لیکن ان کی تعداد بھی ڈیجیٹل میڈیا کی وجہ سے کم ہو تی جارہی ہے۔

ج2 ۔ میڈیا کوئی بھی ہو اُسے جانبدار نہیں ہونا چاہیے۔ آزاد ہونا چاہیے۔ لیکن بڑی بد قسمتی ہے کہ ہماری کچھ میڈیا آرگنائزیشنز اُن کا Tilt   واضح نظر آتا ہے۔ تو کہنے کی بات یہ ہے کہ اکثر اخبارات آزاد نہیں ہیں۔ وہ حکومت کے ترجمان کے طور پرسامنے آتے ہیںیا وہ کسی سیاسی جماعت کے بھی ہوسکتے ہیں۔ کسی اکنامک گروپ کو بھی سپورٹ کر سکتے ہیں۔ اُنھی کی آواز اُنھی کے نظریات کا پر چار کرتے ہوئے نظر آئیں گے ۔غیر جانبداری کی طرف اُن کا رجحان نہیں رہا۔ بہت کم ایسے قارئین ہیں جو اِس وجہ سے اخبار چھوڑتے ہیں کہ اُس کا جھکاﺅ کسی پارٹی کی طرف، کسی تنظیم کی طرف یا کسی گروپ کی طرف ہے۔ تو میرا نہیں خیال ہے کہ ریڈر اتنی جلدی اِس بنیاد پر اخبار بینی کو چھوڑ دیں۔

ج3 ۔ جی بالکل۔ پرائیویٹ الیکٹرانک میڈیا کے پاس تو آپ کو پتا ہے ٹرینڈ جرنلسٹ نہیں تھے۔ پروفیشنل جرنلزم کی کمی تھی۔ تو جو سارے پرنٹ میڈیا کے جرنلسٹ تھے وہ جاکر اینکر پرسن بن گئے۔ اُنھوں نے ہی ادارے کو اور ٹی وی صحافت کو کامیاب بنایا۔ جس سے اخبارات میں اچھے جرنلسٹس کا فقدان ہوگیا۔ دوسری بات ٹی وی پر معاشی فوائد بھی زیادہ تھے اس لیے وہ سوئچ اُور ہوگئے۔ تیسری وجہ اخبارات کی کافی کنٹرول پالیسیز ہوتی ہیں مانیٹر بھی ہو جاتے ہیں۔ جبکہ ٹی وی پر آن ائیر کوئی بھی کچھ کہہ جائے شرکاءکے منہ سے آپ بہت کچھ کہلوا لیتے ہیں۔ جبکہ اخبار کے چھپے ہوئے ایک ایک لفظ کا ادارہ ذمہ دار ہوتا ہے۔ تو اس وجہ سے بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ نیوز چینلز نے اخبارات کے معیار کو بری طرح متاثر کیا ہے اُس کے مندرجات کو متاثر کیا ہے ۔ کیونکہ اُن کے لکھنے والے جتنے بھی حضرات تھے وہ کسی نہ کسی طرح پر الیکٹرانک میڈیا کا حصہ بن گے ہیں اس سے بھی اخبارات کو بہت نقصان دیکھنا پڑا۔

ج4 ۔ یہ آج کی بات نہیں بلکہ ہر دور میں اشتھارات اخبارات یا کسی بھی میڈیا آرگنائزیشن کی ریڑھ کی ہڈی کا کام کرتے ہیں۔ اگر اشتھار ہیں تو اخبار  Sustain  کرتے ہیں۔ اُس میں جتنے ملازمین ہیں اُن کی تنخواہیں اور دیگر ساری چیزیں  Manage  ہوتی ہیں۔ قاری اگر اخبار کے ساتھ جڑا رہتا ہے اُس کے نظریات اور لکھنے کے انداز کو وہ پسند کرتا ہے تو میرا نہیں خیال کے اشتھارات کی وجہ سے وہ اخبار کو پڑھنا چھوڑ دے۔

ج 5 ۔ جی میرا نہیں خیال۔ہر پروفیشنل آرگنائزیشنز کا اپنا ایک Decorum  ہوتا ہے ان کی اپنی پالسیز ہوتی ہیں جو تمام ملازمین کو  Follow  کرنی پڑتی ہیں۔ بہت کم قارئین ایسے ہوتے ہیں جنہیں یہ پتا ہو کہ وہ جس لکھاری کو پسند کرتے ہیں اُس کو اغوا کر لیا گیا ہے ۔ سائیڈ لائن کردیا گیا یا اُسے جاب سے نکال دیا گیا ۔میرا نہیں خیال کہ ڈائریکٹ کسی کارکن کی وجہ سے اخبار کی ریڈر شپ یا اُس کی سرکولیشن متاثر ہوتی ہے۔ ہاںسیکورٹی خدشات کی وجہ سے جرنلسٹ بہت زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ جس کا آرگنائزیشن پر تھوڑا سا اثر پڑتا ہے۔صحافیوں کے اپنے ذاتی مسائل ریڈر شپ کو متاثر نہیں کرتے۔

ج6 ۔ میں کہتی ہوں100 فیصد۔ آج کے جس دور میں ہم رہ رہے ہیں اس میں ڈیجیٹل میڈیا ایک انقلاب لے آیا ہے۔ کئی ایک ٹیکنالوجیز جس میں کیمرہ، ریڈیو، ٹی وی، فلم بنانا کو ایک ڈیوائس میں یکجا کردیا گیا ہے۔تو ڈیجیٹل میڈیا کے اخبارات پر بہت منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ آج ہر بندہ صحافی بن چکا ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتا ہے اُسے ایک نیوز کی صورت میں  Upload  کر دیتا ہے اور اس کے لیے اُسے کسی فارمل ٹریننگ کی بھی ضرورت نہیں۔ آج کل ایسے بہت سارے واقعات ہیں جو میڈیا کو بعد میں رپورٹ ہوتے ہیں لیکن موبائل کے کیمرے کی آنکھ میں پہلے رپورٹ ہو جاتے ہیں۔ اُس پر خبر بھی بن جاتی ہے اور وہ Upload    بھی ہو جاتی ہے اور سوشل میڈیا پر Proper hype create   ہوجاتی ہے۔ یوں ڈیجیٹل میڈیا نے آپ کی فارمل جرنلزم کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ کیا کہنا ہے کس انداز میں کہنا ہے۔ زبان کیسی استعمال کرنی ہے ان سب سے ماورہ جو منہ میں آتا ہے کہہ دیا جاتا ہے۔اس کے سوسائٹی پر بہت منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

ج7۔ جی بالکل میں نے اپنی بات کا آغاز اسی سے کیا تھا۔ کہ پرنٹ میڈیا کی پبلیکشن کا اگر صحیح سروے کرایا جائے تو پتا چلے گا کہ یہ مخدوش ہو چکی ہے۔ اخبارات نے صرف اپنا نام بچانا ہے۔ عزت اور ساکھ بچانی ہے سرکولیشن اُن کی وہ نہیں رہی ۔آج لوگ ڈیجیٹل میڈیا اور ڈیجیٹل اخبارات کی طرف جا رہے ہیں۔اب ہر ادارے کی مجبوری بن چکی ہے ای پیپر نکالنا۔آج کا جو بزنس ہے وہ آن لائن شفٹ ہو چکا ہے اب جوروایتی جرنلزم ہے جو روایتی مارکیٹنگ کے  Prospective  تھے وہ تبدیل ہوگئے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا زیادہ تیزی سے زیادہ  Aggressively  لوگوں کے اندر Penetrate کر رہا ہے۔

ج8 ۔ جی میں آپ سے بالکل متفق ہوں۔ مالکان کی اب زیادہ توجہ الیکٹرانک Content  کی طرف ہے۔ کیونکہ اُنھیں وہاں زیادہ بزنس ملتا ہے۔

ج9 ۔ یہ بہت اہم اور مشکل سوال ہے۔ اس میں ایک چیز ہوسکتی ہے کہ کمیونٹی پریس نکالا جائے۔ ریجنل پریس نکالا جائے وہ کسی حد تک لوکل کمیونٹی کے اندر اور لوکل لیول پر کچھ نہ کچھ چیزوں کو Fulfill   کرسکے گا۔ اس کے علاوہ ڈیجیٹل یا الیکٹرانک پیپر چھاپے جاتے رہیں تو لوگ اِن کو پڑھتے رہیں گے۔ میرا نہیں خیال کہ مجھے اخبارات کی انڈسٹری کا اتنا زیادہ کوئی  Wide scope  نظر آرہا ہے۔

ڈاکٹر فیض اللہ جان، چیئر مین، شعبہ ابلاغیات ، پشاور یونیورسٹی

ج1 ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ورلڈ وائڈ اور خاص کر ترقی یافتہ ممالک میں کافی حد تک اخبارات کے پرنٹ ایڈیشن کی ریڈر شپ کم ہوئی ہے۔ زیادہ تر لوگ اب اخبارات کو انٹرنیٹ پر پڑھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کئی ایک مقبول اخبارات اور میگزینز نے اپنا پرنٹ ایڈیشن بند کر دیا ہے۔ مثلاً امریکہ کے مشہور میگزینز ٹائمز اور نیوزویک نے اپنا پرنٹ ایڈیشن زیادہ ریڈرز نہ ہونے کی وجہ سے بند کردیا ہے۔ تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اخبارات کی ریڈرر شپ کم نہیں ہوئی بلکہ پرنٹ اخبار سے سوئچ کر کے الیکٹرانک ورژن کی طرف چلی گئی ہے۔یعنی پرنٹ اخبار کی سرکولیشن پر تو اثرپڑاہے لیکن نیوز پیپر کی ریڈر شپ پر شاید اتنا نہیں۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو آج سے چار یا پانچ سال پہلے تک کا ڈیٹا یہ تھا کہ پاکستان اور ہندوستان یہ دو ایسے ممالک ہیں جہاں انٹر نیٹ کے دور میں بھی اخبارات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں ایک یہ کہ انٹر نیٹ پاکستان میں  Universally distributed  نہیں ہے۔ یعنی پاکستان کے جو دور افتادہ علاقے ،رورل ایریاز میں انٹر نیٹ دستیاب نہیں ہے۔ انٹر نیٹ بڑے شہروں میں ہے یا شہروں کے نزدیک جو دیہی علاقے ہیں وہاں دستیاب ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کمپیوٹر پر اخبار پڑنے کے لیے صرف انٹر نیٹ کی ضرورت نہیں اس کے علاوہ بجلی کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ تو دیہی علاقوں میں بجلی 24 گھنٹے دستیاب نہیں۔ تو اس وجہ سے ہندوستان اور پاکستان میں اخبارات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن حال ہی میں ایک جرمن آرگنائزیشن کے لیے پاکستان میں اسلام آباد Based   ایک آرگنائزیشن نے ایک اسٹڈی کی ہے اس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے ہاں اخبارات جو ہیں ان کی سرکولیشن میں بھی کمی آرہی ہے لیکن مغرب جتنی نہیں۔

ج2 ۔ اخبارات پہلے بھی غیر جانبدار نہیںتھے۔ لیکن ہمیں غیر جانبدار کی اصطلاح کی وضاحت کرنا ہوگی۔ میں اکیڈمک کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ اخبار کو غیر جانبدار نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اخبارات نے کام کرنا ہے لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے میں ان کی مدد کرنا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اخبارات کو لوگوں کے حق میں جانبدار ہونا چاہیے۔ جو طبقے یا ادارے عوام کا استحصال کرتے ہیں اُن کے خلاف اُنھوں نے جانبدار ہونا ہے۔ تو بہت ضروری ہے کہ اخبارات کے لیے کہ وہ غیر جانبدار نہ ہوں۔ لیکن غیر جانبدار سے اگر آپ کی مرادObjectively   ہو تو پھر اُس پر الگ سے بات ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں اخبارات  Objective  ہیں یا نہیں۔میرے خیال میں اخبار جانبدار ہے یا نہیں اس کا ریڈرشپ پر اثر ضرور پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر عام آدمی اخبار کیوں خریدے اگر اخبار میں عام آدمی کی زندگی سے متعلق خبر نہ چھپے۔ اُس کا  Perspective  نہ چھپے۔ پھر وہ روزانہ 15 روپے یا20 روپے کا اخبار کیوں خریدیں۔تو میرے خیال میں اگر اخبارات کا ٹارگٹ یہ ہے کہ وہ لوگوں میں مقبول رہے اور لوگ اُسے خریدیں تو بہت ضروری ہے کہ اُس اخبار میں عام قاری کی خبریں چھپیں ۔اُس کا  Perspective  اُس کی Opinion   اخبار میں شامل ہو تو لوگ اخبار کو اپنی آواز سمجھ کر اِسے ضرور خریدیں گے۔

ج3 ۔ میرا خیال میں کوالٹی کی بات اگر میں نہ بھی کروں تو پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز نے بہت اثر ڈالا ہے۔ اور یہ بھی ورلڈ وائڈ ہے صرف پاکستان میں نہیں۔ یعنی جب تک پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز پاکستان میں نہیں آئے تھے ۔ تو لوگ اخبار اس لیے پڑھتے تھے کہ ان کو انفارمیشن ملے اور انفارمیشن کے ساتھ ساتھ اُن کو رائے بھی ملے۔ لیکن اب یہ انفارمیشن والا عنصر جو ہے اس کی ذمہ داری اخبارات سے ٹیلی ویژن والوں نے لے لی ہے۔ اب ٹیلی ویژن چینلزہر گھنٹے اور بریکنگ نیوز کی صورت میں لوگوں کو تازہ ترین اطلاعات مہیا کر رہے ہیں۔لیکن پھر اخبارات زندہ کیسے رہ سکتے ہیں؟میرے خیال میں اخبارات کو نیوز کے ساتھ  Context  بھی دینا ہوگا۔ تو لوگ اخبار پڑھیں گے۔ کیونکہ انفارمیشن اِن کو ٹیلی ویژن، سوشل میڈیا اور ریڈیو سے مل جاتی ہے۔ لیکن چونکہ ٹی وی اور ریڈیو کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ہر خبر کا Context   بھی لوگوں کو دیں۔ لہذا اخبارات کو خبر کو  Context  کے ساتھ  Editorialized  کر کے پیش کرنا ہوگا تو پھر اخبارات ٹیلی ویژن اور ریڈیو کا مقابلہ کر سکیں گے۔

ج4 ۔ میرا خیال میں ہمیشہ یہی رہا ہے۔ کیونکہ اخبارات پاکستان میں اور دنیا کے کئی ممالک میں ایک صنعت بن چکے ہیں۔ لوگ پیسہ کمانے یا طاقت کے حصول کے لیے جس سے وہ مزید پیسہ کما سکیں اس غرض سے اخبارات شروع کرتے ہیں۔ لہذا جو اخبارات سرکاری اشتھارات پر اور جو بڑی بڑی کمپنیوں اور کارپوریشنز کے اشتھارات پر dependent   ہوتے ہیں وہ کبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنی رائے میں آزاد ہیں۔ کیونکہ ہر اشتھار کے ساتھ ایک  Editorial Influence  بھی آتا ہے۔ پاکستان میں کئی مثالیں ہیں کہ اشتھار دینے والوں نے باقاعدہ اخبارات ، ٹیلی ویژن کو Influence   کرتے ہوئے اُن کے ملازمین کو بر طرف کروایا۔ تو جب تک اخبارات اشتھارات کے لیے بڑی بڑی کمپنیوں کی طرف، حکومت اور حکومتی اداروں کی طرف دیکھتے رہیں گے اُن کا جو اسٹینڈرڈ ہے وہ کمپرومائز ہوگا۔

ج5 ۔ صحافیوں کے مالی اور سیکورٹی کے مسائل کو ریڈر شپ کے ساتھ لنک کرنے کے لئے Empirical Evidence   کی ضرورت ہوگی جو اس وقت ہمارے پاس نہیں ہے۔

ج6 ۔ میرے خیال میں اس حوالے سے پچھلے سوالات میں کافی بات ہو چکی ہے۔ڈیجیٹل میڈیا لوگوں کو انفارمیشن مہیا کرتا ہے  Context نہیں ۔ اخبارات کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ انفارمیشن کو   Context کے اندر رہتے ہوئے لوگوں تک پہنچائے تو پھر ریڈر شپ کو بچا یا جا سکتا ہے۔

ج7 ۔ یہ Depend   کرتا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کتنی تیزی سے پھیلتا ہے اور لوگوں کے لیے کتنا سستا دستیاب ہے۔ اُس کی سپیڈ کیسی ہے ۔دوسری بات صرف انٹرنیٹ اور اُس کی قیمت ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ جڑی ہوئی دوسری چیزیںمثال کے طور پر سمارٹ فونز، لیپ ٹاپ، کمپیوٹراورٹیبلٹس وغیرہ یہ چیزیں بھی  Matter  کرتی ہیں۔ اگر یہ چیزیں اور سہولیات کسی کے پاس ہوں تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ قارئین جو ہیں وہ آسانی سے ڈیجیٹل یعنی آن لائن اخبارات کی طرف منتقل ہوں گے۔

ج8۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ٹیلی ویژن بڑے Influential   میڈیم کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اور اس سے پیسے بھی جلدی کمائے جا سکتے ہیں۔ چینلز پر بطور ایکسپرٹ جن سیاستدانوں ، بیورو کریٹس اور Celebrities کو مدعو کیا جاتا ہے ۔ یہ لوگ  Advertisement pullers  بھی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں  Celebrity Journalism  کا نیا رجحان پیدا ہوا ہے۔ اینکر پرسن جو ہیں وہ اپنے چینل اور اپنے اخبارات سے اپنی ذات میں بہت بڑے بن جاتے ہیں۔ تو لوگ پھر چینل کے لیے ٹی وی نہیں دیکھتے ان Celebrity Anchorperson   کے لیے دیکھتے ہیں۔

ج9 ۔ پہلی بات تو یہ کہ ملک میں تعلیم کو فروغ دیا جائے۔ کیونکہ اخبار جو ہے وہ خواندہ لوگ ہی پڑھ سکتے ہیں۔ دوسرا جو بہت ضروری کام ہے جو پاکستان میں نہیں وہ میڈیا لٹریسی ہے۔ لوگوں کو اس بارے میں  Educate  کرنے کی ضرورت ہے کہ میڈیا کی کیا ذمہ داری ہے اُسے کیا کرنا چاہیے۔ میڈیا کس کو  Responsible  ہے اور کس کو نہیں۔ تو میرے خیال میں اگر میڈیا لیٹرسی کو فروغ دیا جائے تو اس سے بھی ریڈر شپ میں اضافہ ہوگا۔ اخبار کو پڑھنا ہمیشہ سے ایک  Cultural Activity  رہی ہے۔تو میرے خیال میں انفرادی سطح پر جو لوگ  Afford  کرسکتے ہیں وہ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے استعمال کے ساتھ ساتھ روزانہ ایک اخبار گھر میں لائیں۔ تاکہ گھر کے تمام افراد کو یہ احساس ہو کہ اخبار جو ہے وہ فیملی کا ایک اہم جزو ہے۔ اس کے علاوہ سول سو سائٹی اور ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹس کو چاہیے کہ وہ اسٹڈی سرکل کا انعقاد کریں جہاں اخبارات پڑھنے کی اہمیت پر بات ہو ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آرگنائزیشن اس طرح کی سرگرمی کر لے کے آٹھ سے دس لوگ روزانہ کہیں اکٹھے ہوں مل بیٹھ کر اخبارپڑھیں اور پھر اُس کے مندرجات کو آپس میں Discuss   کریں ۔ تو یہ ایک طریقہ ہو سکتا ہے جس سے اخبار کی ریڈر شپ کو بڑھایا جا سکتا ہے۔

فہیم بلوچ، چیئر مین، شعبہ ابلاغیات، یو نیورسٹی آف بلوچستان ، کوئٹہ

ج1۔ جی گزشتہ چند سالوں میں خاص طور پر سوشل میڈیا کی آمد کے بعد اخباری قارئین کی ملک میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ریڈر شپ اب اتنی اچھی نہیں جتنی ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ لوگ پڑھنے کی بجائے دیکھنے والے بنتے جا رہے ہیں وہ ویڈیوز دیکھنے اور اُنھیں شئیر کرنے میں مصروف ہیں جو کہ اخبارت کے لیے ایک اچھی علامت نہیں ہے۔

ج2 ۔ اخبارات اپنی بقا کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں جس کے لیے اُنھیں بہت سارے سمجھوتے کرنا پڑ رہے ہیں۔ اور ان میں سے ایک معاشرے کے بڑوں کی طرف داری ہے۔ جس کا اخبار کے مندرجات پر اثر پڑتا ہے کیونکہ مواد ہمیشہ اخبار کے ساتھ قارئین کی وفاداری کی سطح کا فیصلہ کرتا ہے۔

ج3 ۔ ٹی وی نیوز چینلز نے مجموعی طور پر اخبارات کے قارئین کو متاثر کیا ہے۔ نجی نیوز چینلز کی آمد سے پہلے اخبارات اطلاعات کا سب سے بڑا ذریعہ تھے۔ لیکن اب نیوز چینلز بغیر کسی تاخیر کے خبریں مہیا کر رہے ہیں۔ کسی بھی واقعہ کی خبر اب منٹوں میں نشر کی جاتی ہے ماضی میں کسی واقعہ کے بارے میں جاننے کے لیے اگلے دن کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ جب اخبار قاری کے پاس پہنچتا تھا۔

ج4 ۔ یہ حقیقت ہے کہ اخباری مالکان پیسہ کمانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس سے مبرا کہ قارئین کو کیا پسند ہے اور کیا نا پسند۔ اس کو بڑی آسانی سے اخباروں میں اشتھارات کی  Placement  کے تناظر دیکھا جا سکتا ہے۔ بڑے اخبارات کے فرنٹ پیج خبروں کی بجائے اشتھارات سے مزئین ہوتے ہیں۔ قارئین اخبارات میں زیادہ سے زیادہ خبریں دیکھنے کہ متمنی ہوتے ہیں خاص کر فرنٹ پیج پر لیکن اُنھیں وہاں بڑے بڑے اشتھارات دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے۔ وہ اخبارات جن کے اپنے ٹی وی چینلز ہیں وہ اپنے اخبارات میں اپنے ٹی وی پروگراموں یا ڈراموں کی تشہیر کا مواد شائع کرتے ہیں جوکہ اخبار کے ایک بڑے حصہ پر مشتمل ہوتا ہے۔

ج5 ۔ اخبارات کے صحافی تنخواہوں کے پیکج کے حوالے سے ٹیلی ویژن میں کام کرنے والوں کی نسبت اتنے خوش قسمت نہیں۔ پرنٹ میڈیا کے لیے کام کرنے والے بیشتر صحافی ٹیلی ویژن سے وابستہ صحافیوں کے مقابلے میں جو حاصل کرتے ہیں اس سے وہ مطمئین نہیں ہیں۔ کیونکہ ٹی وی صحافیوں کی تنخواہیں اُن کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ یہ چیز پرنٹ جرنلزم سے وابستہ صحافیوں کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں وہ پوری دل جمعی سے کام نہیں کر پاتے اور ہمیشہ ٹی وی چینلز میں جانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ چیز اخبار کے معیار پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔اس کے علاوہ صحافیوں کے لیے پیشہ ورانہ کارکردگی کا مطاہرہ کرنے میںاُن کی سیکورٹی ایک بہت بڑا مسئلہ اور رکاوٹ ہے۔ زیادہ تر وہ کسی ایسے خیال یا موضوع پر کام نہیں کر سکتے جس کے بارے میں اُن کا خیال ہے کہ وہ اس سے زیادہ قارئین کو راغب کر سکتے ہیں۔ اگرچہ وہ مشاہدہ تو بہت کرتے ہیں لیکن اپنی تحریروں میں اس کی عکاسی نہیں کر سکتے۔ جس کے نتیجے میں اخبارات میں سطحی نوعیت کا مواد دیکھا جاتا ہے۔ تحقیقی صحافت کا تصور صرف جرنلزم کی نصابی کتب میں ہی دستیاب ہے جس پر کھلے عام عمل نہیں کیا جاسکتا۔افتتاحی تقاریب، کھیلوں کے مقابلے، شجر کاری کے بارے میں آگاہی واک جیسی  Soft  نیوز قارئین کے لیے دستیاب ہوتی ہیں۔ اس طرح کی رکاوٹوں کا مندرجات پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ ان حالات میں معیاری مواد تیار نہیں کیا جا سکتا۔

ج6 ۔ ٹیکنالوجی میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ صحافت کے شعبے میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔لوگ نئی ٹیکنالوجیز اپنا رہے ہیںجو تیز اور آسانی سے دستیاب ہیں۔ حتیٰ کہ اخباری ادارے بھی اس تبدیلی کا مقابلہ نہیں کر سکے اور زیادہ قارئین کو راغب کرنے اور مواد کو قارئین کی وسیع تعداد تک پہنچانے کے لیے ڈیجیٹل ٹولز کا استعمال کر رہے ہیں۔اس کے نتیجے میں لو گوں کی ایک بڑی تعداد نے طباعت شدہ اخبار چھوڑ کر ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا رخ کیا ہے۔ اخبارات کے قارئین کو کم کرنے میں ڈیجیٹل میڈیا کا بڑا کردار ہے۔ لوگ کسی بھی مسئلہ میں آگہی حاصل کرنے کے لیے ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ اخبارات سے تیز ہیں لیکن ان کی ساکھ کے حوالے سے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

ج7 ۔ ای اخبارت کی دستیابی اور سہولت نے قارئین کو طباعت شدہ اخبار سے ڈیجیٹل اخبارات کی طرف موڑ دیا ہے۔ نوجوان نسل سوشل میڈیااور انٹر نیٹ کو کسی بھی دوسرے میڈیا کی نسبت زیادہ وقت دے رہی ہے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو ای اخبار کو ترجیح دیتے ہیں۔ سینئر نسل اب بھی پرنٹ اخبارات کو ترجیح دیتی ہے کیونکہ وہ اسے زیادہ آسانی سے استعمال کرسکتے ہیں بانسبت نئے ڈیجیٹل آلات کے۔

ج8 ۔ جی ٹی وی چینلز کے مالکان اخبارات کی بجائے چینلز کو زیادہ اہمیت اور توجہ دے رہے ہیں۔ نیوز چینلز اخبارات کی نسبت زیادہ محصول اکٹھا کرتے ہیں۔ ایڈورٹائزر کی توجہ بھی ٹی وی چینلز پر زیادہ ہے۔ وہ اخبارات کی نسبت چینلز کو زیادہ اشتھار اور معاوضہ دیتے ہیں۔ دوسری جانب ٹی وی چینلز کی زیادہ آمدن کے سبب وہ اپنی ٹیم کو اچھی تنخواہیں دیتے ہیں۔ جبکہ اخبارات کے عملے کو اچھی تنخواہیں نہیں ملتیں۔ مالکان کے اس طرز عمل سے اخباری مواد پر بھی اثر پڑتا ہے۔ کیونکہ وہ پرنٹ میڈیا کو نظر انداز کرتے ہیں .ہیرالڈ میگزین کی حالیہ مثال ہمارے سامنے ہے جو کئی دہائیوں تک اشاعت کے بعد بند کردیا گیا کیونکہ حالیہ برسوں میں اُس کے پاس زیادہ قارئین نہیں تھے۔ اس طرح کی پبلیکیشنز کی بندش ایک تشویش ناک صورتحال ہے اگر ایک نامور اور مستند رسالہ اپنی بقا کو قائم نہیں رکھ سکا تو پھر کم اشاعت والی پبلیکیشنز کا کیا حال ہوگا۔

ج9۔ دوسرے پلیٹ فارمز کی موجودگی میں اخبارات کے قارئین کو زندہ کرنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ اس مسئلہ کا بین الاقوامی اخبارات کو بھی سامنا ہے۔ دنیا بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اسی طرح اطلاعات کا بہاﺅ بھی ۔ لوگ خبروں کے لیے انتظار یا اخبار پر انحصار نہیں کر سکتے۔ اخبارات کو زندہ رہنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑے گی۔ اُسے ایسا مواد فراہم کرنا پڑے گا جو انٹر نیٹ یا ٹی وی پر آسانی سے دستیاب نہ ہو۔ اس مواد کو دوسرے مسابقتی پلیٹ فارمز سے مقابلہ کرنا ہوگا تب ہی قارئین اخباروں کی جانب راغب ہوں گے۔

راشد حسین، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ، ماس کمیونیکشن اینڈ میڈیا اسٹڈیز، قراقرم انٹر نیشنل یو نیورسٹی، گلگت

ج 1 ۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے پھیلاﺅ سے اخبارات کی افادیت ختم ہورہی ہے اور پرنٹ انڈسٹری سمٹ کر ویب سائٹس پر آرہی ہے۔

ج2۔ اخبارات کے مالکان اپنے ذاتی کاروباری مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایجنڈا ترتیب دیتے ہیں اور مفادات کے حصول کے لیے صحافتی اقدار کو پامال کرتے ہوئے جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انکی ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہوتی ہے۔

ج3۔ نیوز چینلز نے سنسنی خیزی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اخبارات کی جو صحافتی زبان ہے اس کو بھی متاثر کیا ہے ۔ بریکنگ نیوز کلچر نے اخبارات کو بھی اس حد تک مجبور کیا ہے کہ وہ مصالحہ دار زبان کو سرخیوں میں استعمال کرے ہے۔ جو ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔

ج4 ۔ اخبارات کی ترجیح اشتھارات ہے۔

ج5۔ نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری خود میڈیا انڈسٹری پر ہے جو تحقیقی صحافت کی بجائے پریس ریلیز اور ایجنسی کریڈز پر بھروسہ کرتے ہیں۔ تمام اخبارات میں ایک قسم کا کنٹینٹ ہوتا ہے تو پڑھنے والوں کی دلچسپی ختم ہوتی جارہی ہے۔

ج6 ۔ بہت زیادہ اگر پہلے 100 لوگ اخبار کی کاپی خرید کر پڑھتے تھے تو اب ڈیجیٹل میڈیا کی وجہ سے 2 سے3 فیصد پر آگئی ہے ریڈر شپ۔

ج7۔ جی پرنٹ سے آن لائن کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔

ج8 ۔ بالکل مالکان کے کاروباری ذہن کی عکاسی ہے۔ جہاں زیادہ ملے وہاں انوسٹ کیا جاتا ہے۔ مالکان کی اکثریت صحافت کو ذریعہ کاروبار سمجھتی ہے۔ اور الیکٹرانک میڈیا کی طرف شفٹنگ بھی اسی سوچ کی عکاس ہے۔

ج9 ۔ تجاویز تو بہت ہیں لیکن ڈیجیٹل ایج میں لوگوں کو روایتی صفحوں کی طرف موڑنا بہت بڑا چیلنج ہے جو ناممکن ہے۔

ڈاکٹر بخت روان، شعبہ ابلاغیات، علامہ اقبال اوپن یو نیورسٹی، اسلام آباد

ج1 ۔ پاکستان میں اور پوری دنیا میں اخبارات کی ریڈرشپ اور سرکولیشن کمی کی طرف جارہی ہے۔ جو نئی ٹیکنالوجی ماس کمیونیکشن کی فیلڈ میں آئی ہے وہ وجہ ہے اس کی۔ اخبار ہارڈ کاپی کی بجائے لپ ٹاپ میں آپ کے موبائل پر آگیا ہے۔ تو سرکولیشن کی کمی کی وجہ تو یہ ہے۔ جو ریڈر شپ ہے اُس کا موڈ چینج ہو گیا ہے اب ہارڈ کاپی کی بجائے لوگ آن لائن اخبارات کی طرف آرہے ہیں۔

ج2 ۔ یہ حقیقت ہے اور کئی ریسرچ اسٹڈیز سے یہ بات واضح ہے کہ اخبار بلکہ کوئی بھی ماس میڈیم غیر جانبدار نہیں۔ چاہے وہ سرکاری ہو یا نجی۔ اُن کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں جو سیاسی بھی ہوسکتے ہیں اور کمرشل بھی۔ آجکل کمرشل ازم زیادہ ہے اور اشتھار ایک ہتھیار ہے جس کی وجہ سے ایڈورٹائزر یا جو بھی پارٹی ہے وہ اخبار یا دیگر ماس میڈیم کے  Content  کو اپنے حق میں اور دوسروں کے خلاف Manipulate   کرواتا ہے۔ اخبارات یا دیگر ماس میڈیم شروع سے ہی پارٹیز میں یا حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ یہ فلاں سیاسی جماعت کو یا فلاں گروپ کو فلاں انفرادی کو یا حکومت کو یا اپوزیشن کو سپورٹ کرتے ہیںاور آج بھی کر رہے ہیں۔ جو  Neutral  بندہ ہے وہ یہ دیکھتا ہے کہ اس میڈیا آرگنائزیشن کا کسی پارٹی کی طرف زیادہ جھکاﺅ ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ اگلے دن کہے کہ یہ میں نے نہیں پڑھنا۔ اس طرح ایک سیاسی جماعت کی طرف جھکاﺅ رکھنے والے اخبار کو دوسری سیاسی جماعت کے کارکن پسند نہیں کریں گے۔

ج3 ۔ اس کو ہم دو پہلوﺅں سے دیکھ سکتے ہیں۔ ایک تو اس کی وجہ سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مقابلہ پیدا ہوگیا ہے۔پرنٹ میڈیا جو پہلے بہت پرانی خبریں شائع کرتا تھا۔ اب وہ بھی جدید ٹیکنالوجی اپنا کر جرنلزم کو آن لائن کر تے ہوئے اپنے مندرجات کو تازہ ترین بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ لیکن اخبار اب بھی ہے اور رہے گا کیونکہ اس میں  Content  جو ہے وہ اب ایڈیٹوریل ہے۔ کالمز ہیں فیچرز ہیں اور ٹی وی نیوز چینلز آپ کو ہیڈ لائن کی صورت میں خبر دیتے ہیں ۔ بہت مختصر خبر ہوتی ہے۔ اس کی تفصیل آپ اگلے دن اخبارات میں پڑھتے ہیں۔

ج4 ۔ یہ دونوں چیزیں ہیں اُس کی ترجیح اخبار بھی ہے اور قاری بھی۔ کیونکہ قاری کے بغیر اشتھار نہیں اور اشتھار کے بغیر قاری نہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جس اخبار کی ریڈر شپ زیادہ ہوتی ہے سرکولیشن زیادہ ہوتی ہے ۔ اُس کو جو اشتھار ملتا ہے وہ اُس کی قیمت بھی زیادہ چارج کرتے ہیں بانسبت کم ریڈر شپ اور سرکولیشن والے اخبارات کے۔ایڈواٹائزر کی بھی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اُن کا اشتھار اُسی اخبار میں شائع ہو تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔ اس لیے یہ Depend کرتا ہے کہ جتنے زیادہ ریڈر ہوں گے اتنی اشتھار کی قیمت زیادہ ہوگی۔ اس لئے اخبار کے لیے ریڈر شپ کو  Maintain  رکھنا اہم ہے ۔اُس نے اُنھیں ناراض بھی نہیں کرنا اُن کی مرضی کا مواد بھی دینا ہے ۔ آج میڈیا ایک انڈسٹری ہے اور کوئی بھی انڈ سٹری گھاٹے کا سودا نہیں کرتی۔ اور جو بنیادی چیز ہے وہ اشتھار سے پیسہ کمانا ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر انڈ سٹری نہیں چل سکتی۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسے ریڑھ کی ہڈی کے بغیر Survive   نہیں کیا جاسکتا۔

ج5 ۔ میرا نہیں خیال کہ جو ریڈر ہے اُسے یہ پتا ہو کہ صحافی کو کون کونسے مسائل درپیش ہیں۔ وہ تو   Contentکو دیکھتا ہے ۔ اُس کو یہ بھی پتا نہیں ہوتا کہ Content   کا جو Process   تھا وہ کیا تھا۔ کس نے لکھا۔ کس نے ایڈیٹ کیا اور میرے پاس کس طرح پہنچا۔ اب اُس کی کوالٹی کیا ہے۔ تو آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ریڈر کو مواد صحیح ملتا ہے کہ نہیں یہ چیز Matter   کرتی ہے۔ ہاں اگر صحافیوں کو سیکورٹی خطرات ہیں تو وہ پھر Content   پر کمپرومائز کرتے ہیں۔ وہ سچ نہیں لکھ سکتے خصوصاً کانفلیکٹ زون میں اُسے ہر کوئی مجبورکرتا ہے کہ میرے پوائنٹ آف ویو کی تشہیر کرے۔ تو اُس میں نقصان جو ہے وہ قاری کا ہوتا ہے اور قاری تک سچ نہیں پہنچتا۔

ج6 ۔ اس سوال پرکے حوالے سے اوپر بات ہو چکی ہے۔

ج7 ۔ ہاں میرے خیال میں یہ جو آن لائن والی ٹیکنالوجیکل ڈیولپمنٹ ہوئی ہے۔ اس سے قاری کہیں پر بھی اپنے موبائل یا لپ ٹاپ پر اپنی ضرورت کے مطابق جو   Content اُسے پسند ہے دیکھ سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ ایک لحاظ سے فری بھی ہوتا ہے۔ تو یہ بات بالکل درست ہے کہ یہ اب اس طرف منتقل ہورہے ہیں۔

ج8 ۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مالکان جن کی کراس میڈیا اونر شپ ہے ۔ جن کا ٹیلی ویژن چینل بھی ہے ریڈیو چینل بھی اور اخبار بھی۔ اُن کے لیے تو یہ سوال  Relevant  ہے۔ جیسے آپ نے بڑے گروپس کی بات کی تو یہ بالکل صحیح ہے کہ جو مالکان جن کی ایک سے زائد نیوز آرگنائزیشنز ہوتی ہیں اُس کی سوچ ہر جگہ نظر آتی ہے۔جس سے Content   میں آپ کو Variety   نہیں ملتی۔ کیونکہ اخباراور نیوز چینل کسی ایک فرد کا ہوتا ہے ۔ تو میڈیا  User  کے پاس چوائس نہیں ہوتی اور اُسے انگریزی ، اردو پرنٹ اور الیکٹرانک میں کوئی  Variation  نہیں ملتی۔ جو  Content  ٹی وی پروگراموں میں پیش کیا جاتا ہے اگلے دن وہ سب کچھ آپ کو اخبار میں ملتا ہے اس طرح Content   میں تنوع نہیں رہتا۔ اور جہاں تک بات ہے زیادہ توجہ دینے کی تو چونکہ الیکٹرانک میڈیا کو آج کل دور ہے تو اِن کی زیادہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کو بہتر بنائیں اور لوگوں تک پہنچائیں۔

ج9 ۔ میں تھوڑا سا  Theoretical Perspective  میں بات کروں گا۔ ایک ابلاغی تھیوری  Uses and gratification  ہے جو ہم اسٹوڈنٹس کو پڑھاتے ہیں یہ ورلڈ وائڈ ٹیسٹڈ ہے اس پر بہت ساری ریسرچ ہو چکی ہے۔ اس کے مطابق ریڈر یا کنزیومر اپنی ضرورت کے مطابق  Content  کو میڈیا سے Select   کرتا ہے۔ میڈیا کا استعمال اُس طریقے سے کرتا ہے جو اُس کی  Needs  ہے۔لہذامیڈیا کی جو بھی صورت ہے پرنٹ یا الیکٹرانک اس پر ریسرچ کی ضرورت ہے۔کہ جو سامعین، ناظرین اور قارئین ہیں اُن کی ضروریات کیا ہیں۔ وہ کس  Content  کو پسند کرتے ہیں۔ یعنی اپنے ٹارگٹ گروپ کی Needs کے مطابق جب میڈیا اپنا Content   تیار کے گا تو میرا خیال ہے پھر ریڈر شپ یا جوبھی مارکیٹ ہے وہ بہتر ہو جائے گی۔

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ (تمغہ امتیاز)، سینئر صحافی ،کوئٹہ

ج1 ۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں تک جب ملک کی آبادی ساڑھے تین کروڑ سے ساڑھے چار یا پانچ کروڑ کے درمیان تھی اور شرح خواندگی تقریباً 30 فیصد تھی۔ تو آج کے مقابلے میں اُس وقت قومی اخبارات کی اشاعت دگنی سے زیادہ تھی۔ اور یہ عام رجحان تھا کہ ایک اخبار اوسطاً سات سے آٹھ افراد پڑھتے تھے۔ آج ملک کی آبادی تقریبا ً 22 کروڑ ہے شرح خواندگی 56 فیصد ہے۔ یہ درست ہے کہ آج قومی اخبارات کی فہرست گزشتہ چالیس پچاس برسوں کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے مگر اِن کی مجموعی تعداد اشاعت ماضی قریب کے مقابلے میں نصف سے بھی کم رہ گئی ہے۔اس وقت صوبائی اور مقامی سطح پر پی آئی ڈی اور ڈی جی پی آر آفسز میں قومی اور مقامی اخبارات کی جو سرکولیشن (تعداد اشاعت) ریکارڈ پر ہے۔ عموماً وہ بھی درست نہیں ہے۔ اخبارات کے مالکان تعداد اشاعت اب تک اس لیے زیادہ لکھواتے رہے کہ اس کی بنیاد پر اشتھارات کے نرخ زیادہ ہوتے ہیں۔لیکن اب نئی حکومتی پالیسی کے تحت ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات کی وجہ سے اگر کسی اخبار کی تعداد اشاعت سرکاری ریکارڈ پر زیادہ ہوگی تو اُسے زیادہ ٹیکس دینا ہوگا۔ اس لیے اب2020 تک سرکاری ریکارڈ سے بھی واضح ہو جائے گا کہ اخبارات کی حقیقی اشاعت اور ریڈر شپ کتنی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی کے مقابلے میں پاکستان میںاخبارات کی ریڈر شپ میں کمی واقع ہوئی ہے۔

ج2 ۔ اخبارات روز شائع ہوتے ہیں اور خبر، تبصرے، ادارئیے اور تجزیئے خود ہی اعلان کر دیتے ہیں کہ وہ جانبدار ہےں یا نہیں۔ جہاں تک اخبارات کی غیر جانبداری کا تعلق ہے تو بہت سے اخبارات ماضی میں بھی غیر جانبدار نہیں تھے۔ مگر اُس وقت اخبارات کی جانبداری نظریاتی بنیادوں پر ہوتی تھی۔ اور صحافت کو نامور لکھاری، دانشور مشن قرار دیتے تھے۔ لیکن پھر عمدہ اور خالص صحافت غیر جانبدارانہ اور پیشہ وارانہ صحافت کہلانے لگی۔ 1990 میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد نظریاتی جانبداری ختم ہو گئی مگر بد قسمتی سے کمر شل ازم کو تقویت ملی اور اخبارات کی جانبداری مالی مفادات اور شخصیات کی طرفداری پر مبنی ہو گئی۔ اور اس سے واقعی اخبار بینی میں کمی واقع ہوئی یا یوں کہہ لیں کہ یہ بھی ریڈر شپ میں کمی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

ج3 ۔ ٹی وی نیوز چینلز نے ویسے تو مجموعی طور پر اخبارات کو منفی انداز میںمتاثر کیا اور قارئین کو سست اور ذہنی کاہل بنا کر پڑھنے کے عمل اور رجحان سے دور کرنا شروع کر دیا ہے۔ پھر بد قسمتی سے اخبارات کے مالکان ہی ٹی وی چینلز بھی کھول کر بیٹھ گئے اور اخبارات کے صحافیوں ، دانشوروں کو چینلز پر لے آئے۔ اِن پر کام کا دباﺅ بڑھ گیا۔ ٹی وی آسان ہے اور زیادہ پیسے دیتا ہے۔ اخبارات میں لکھنا پڑتا ہے اور معاوضہ کم ہے نتیجہ سامنے ہے اور برا ہے۔

ج4 ۔ آزادی سے قبل ہمارے ہاں صحافت مشن ہوا کرتی تھی۔ 1980 کی دہائی تک مالکان اخبارات یہ کہنے لگے کہ صحافت پیشے کے اعتبار سے مشن ہے مگر شعبے کے لحاظ سے انڈسٹری ہے۔ پھر 80 کی دہائی کے دوران ہی اخباری صنعت کہا جانے لگا۔ اور سن دوہزار سے جب ٹی وی چینلز پرائیویٹ شعبے میں آزادی صحافت کے نعرے لگاتے آئے تو سب ہی پہلے بزنس کی طرف بھاگے۔ اشتھارات، انڈسٹری اور کارخانوں کے مالکان اور بینکوں کے مالکان دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں اخبارات کے صفحات کی مقررہ تعداد ہوتی ہے اور آپ دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی اشتھار آتا ہے بڑے سے بڑے قومی اخبارات فرنٹ پیج تک پر قاری کی پرواہ کئے بغیر اشتھارات کو شائع کر دیتے ہیں۔

ج5 ۔ ظاہر ہے کہ صحافی مالی پریشانیوں اور سیکورٹی کے مسائل سے آزاد ہوگا تو اچھے اور آزادانہ ماحول میںمعیاری کام کرے گا۔ اور معیاری خبریں اور تبصرے قارئین کو ملیں گے۔ اس وقت عام صحافی کی تنخواہ کیا ہے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے اور اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ پھر وہ اپنے اخراجات کیسے پورا کر تا ہے؟

ج6۔ نوے کی دہائی پوری دنیا میں ہر اعتبار سے اور ہر شعبے میں تیز رفتار تبدیلیوں کا آغاز تھی۔ جو اب زیادہ تیزی اختیار کر گئی ہے۔ بقول غالب۔ محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ اختصار پسندی اتنی بڑھی ہے کہ اب قاری صرف چند مختصر جملوں میں بات سننے، پڑھنے اور دیکھنے پر ہی آمادہ ہوتا ہے۔ اس سے ابلاغ کا بحران تو پیدا ہورہا ہے ۔مگر اس کے باوجود اخبارات کی ریڈر شپ ڈیجیٹل میڈیا نے قدرے کم کی ہے۔

ج7۔ جی ہاں۔ اس کے فائدے بھی ہیں اور کچھ نقصانات بھی۔ پہلے نقصانات پر نظر ڈالتے ہیں۔ آن لائن یعنی اسکرین پر پڑھنے سے نظر، گردن کے مہرے متاثر ہوتے ہیں۔ اور کوئی انسان اس پر طویل مضامین، تبصرے، تجزیئے پڑھنے سے گریز کرتا ہے۔اخبارات کی پرنٹنگ سے وابستہ روزگار کے مواقعوں میں کمی آئی ہے۔ فائدہ یہ ہے کہ آج کل اخبارکا ماہانہ بل500 روپے ہے ۔اب بہت سے لوگ گھر پر اخبارات بند کروا کر آن لائن اخبارات پڑھتے ہیں۔

ج8۔ بالکل درست ہے۔ اخبارات کے مالکان ہی نے نیوز چینلز بھی کھول رکھے ہیں۔ اگست2018 تک حکومتی پالیسیاں نیوز چینلز کے حق میں تھیں ۔پارٹی لیڈروں کا عوامی رابطہ زیادہ تر ٹی وی چینلز کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لیڈر جلسہ عام سے خطاب کر رہا ہے تو نیوز چینلز براہ راست دکھاتے ہیں۔ اخبارات میں تفصیلات اور تصاویر دوسرے دن آتی ہیں۔ لیکن اخبار محتاط ہوتا ہے ۔ اخلاقی اور تہذیبی اقدار کو مدنظر رکھتا ہے۔ مالکان بزنس چاہتے ہیں۔ یوں اِن کی اکثریت اخبارات کو خود نظر انداز کر رہی ہے۔ اس سے واقعی فکر و دانش، تحقیق اور نالج کے اعتبار سے تنوع اور معیار کو قومی سطح پر بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔ آج اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد کی معلومات کی سطح پر شرمندگی ہوتی ہے۔ یہ ایک قومی نقصان ہے۔

ج9 ۔ اس وقت ضرورت ہے کہ خواندہ افراد کو مطالعے کی جانب راغب کیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ علمی ادبی کتب سمیت اخبارات کے لیے کاغذ، روشنائی اور دیگر ایسے کیمیکل جو پریس میں استعمال ہوتے ہیں ان پر ہر طرح کی ٹیکس ڈیوٹی ختم کردی جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسا قانون بنائے کہ جو اخبارات شائع کرتے ہیں وہ مالکان ٹی وی چینلز نہ چلائیں۔ اخبارات کو اشتھارات با قاعدگی سے دیئے جائیں۔ پریس کلبوں میں پرنٹ میڈیا سے متعلق صحافیوں کو زیاہ مراعات حاصل ہوں۔ اسکولوں کی سطح پر لیٹریری سوسائٹیوں ، بزم ادب اور ریڈرز کلبوں کے پرانے انداز کو مستحکم اور فعال کیا جائے۔ تمام اخبارات با قاعدگی سے بچوں، جوانوں اور خواتین کے کم ازکم ہفتہ وار ایڈیشن شائع کریں۔ سنڈے میگزین اور میڈویک میگزینوں میں بھی نئے لکھنے والوں کوشامل کیا جائے۔ ایڈیٹر اور سب ایڈیٹر محنت کریں۔ نئے لکھنے والوں کی تحریروں کو درست کرکے شائع کرنے کا عمل دوبارہ شروع کریں۔ اس طرح اخبارات کے قارئین میں سالانہ ہزاروں کا اضافہ ممکن ہے لیکن اس کے لیے مربوط انداز میں مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

محمد نواز طاہر، سینئر صحافی ، لاہور

ج1 ۔ جی ہاں ، اخبارات کی ریڈر شپ میں اچھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے اور مزید ہورہی ہے۔

ج2 ۔ پوری طرح متفق ہوں ۔درست ہے کہ اخبارات غیر جانبدار نہیں ۔ جانبداری اخبارات کا نیا مسئلہ یا پالیسی نہیں ۔ ایسا ماضی میں بھی ہوتا آیا ہے۔ کئی اخبارات تھے اورہیں جو اعلانیہ طور پر ایک خاص نظریے کی نمائندگی کے دعویدار رہے۔ خاص نظریے کی نمائندگی کا اعلان کیے بغیر کسی خاص سوچ ، گروپ یا مفادات کی بنا پر کسی کی حمایت یا مخالفت اخبار کی غیرجانبداری پر دھبہ کہلاتی ہے اور اس کی ساکھ متاثر ہوتی ہے جس سے اس کے قارئین کی تعداد پر بھی اثر پڑتا ہے ۔ یہ قائین وہ ہیں جو خود بھی خاص سوچ اور وابستگی رکھتے ہیں لیکن عام قارئین اخبارات کی اس جانبداری کو پسند نہیں کرتے ۔

ج3۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اخبارات کی ریڈر شپ پر ٹی وی چینلز اثر انداز ہوئے ہیں ۔ یہ شرح کم از کم پینتیس فیصد ہے ۔ اس میں ان قارئین کی تعداد زیادہ ہے جو چلتے پھرتے ، سٹال ، حمام ، دوکان، تھڑے کی مجلس پر دوسروں کا خریدا ہوا اخبار پرھتے تھے اور ایک قلیل تعداد ان اخبار بینوں کی بھی ہے جو دوسروں کے گھر یا دوکان سے منگواکر پرھتے تھے یا لوگ اپنی دکان یا دفتر سے اخبار اٹھا کر گھر لے آتے تھے ۔اب ان کی ضرورت ٹی وی چینلز اور انٹرنیٹ نے پوری کردی ہے ۔ متبادل اور تیز رفتار ذرائع اطلاعات دستیاب ہونے سے دیہات میں اخبارکی ریڈر شپ بہت کم ہوئی ہے ۔ جہاں تک اخبارات کے معیار پر نیوز چینلز کے اثر انداز ہونے کی بات ہے تو بسا اوقات چینلز اور اخبارات کی خبر ایک سی ہوتی ہے حالانکہ چینل کی خبر میںزیادہ تفصیل ممکن نہیںلیکن پھر بھی اخبارات چینلز کی خبر پر ہی انحصار کرلیتے ہیں اور ماضی میں ضروری سمجھی جانے والی تفصیل اب غیر ضروری سمجھی جانے لگی ہے ۔ ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اب میڈیا ہاﺅس کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جہاں اخبار کے ساتھ چینل بھی چل رہا ہے اور رپورٹنگ ٹیم ایک ہی ہے ۔اس لئے اخبار کا نمائندہ جو خبر چینل کے لئے بناتا ہے اس کی ایک کاپی اخبار کو بھی فراہم کرتا ہے۔ریڈیو ٹی وی کی مانیٹرنگ کا پرانا نظام بھی متاثر ہوا ہے ۔ اخبارات میں خبروں کے علاوہ مضامین ، فیچر اور دیگر مواد کا معیار گرا ہے اور اور تعداد بھی کم ہوئی ہے، خواتین اور بچوں کی اخبارات میں دلچسپی کم ہوئی ہے۔

ج4 ۔ اشتہار کے بغیر اخبار کی اشاعت برقراررکھنا ناممکن ہے کیونکہ اشتہارات اخبار کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ۔ صحافی کے لئے اشتہارات کے بجائے صحافتی مواد زیادہ اہمیت کا حامل ہے لیکن اخبارات کی انتظامیہ کے لئے اشتہارات کی اہمیت ہے ۔ انتظامیہ کو خبر سے غرض ختم ہوگئی ہے اور صرف اشتہارات سے غرض رہ گئی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ صحافتی اور تشہیری مواد کی شرح کا تعین نہ کرنا ہے۔ چونکہ قارئین کی طرح تشہیر کروانے والوں کا بھی اتنا ہی حق ہے اور میںدونوں کے حق کو تسلیم کرتا ہوں لیکن اخبارات کی موجودہ پوزیشن ماضی کے اخبارات کے صحافتی معیار سے بہت پیچھے چلی گئی ہے جو معاشر ے میں آگاہی پیدا کرنے کی کوششوں کے برعکس اور منفی عمل ہے۔ اب خبر کے بجائے اشتہار ہی ترجیح ہیں حالانکہ ترجیح خبر ہونی چاہئے ۔ اگر خبر ترجیح ہوتی تو کیا اخبارات میں ایڈیٹوریل سٹاف ( رپورٹر، سب ایڈیٹر، فوٹو گرافر ، کارٹونسٹ ) کوبڑے پیمانے پر بیروزگار کیا جاتا ؟ جتنی چھانٹیاں ہوئی ہیں ان میں شعبہ اشتہارات سے تو شائد پانچ فیصد بھی نہیں ہوئی۔

ج5 ۔ بلا شبہ یہ مسائل بھی ایک اہم وجہ ہیں۔ صحافی یا میڈیا کارکن کو ملک کے مروجہ قانون ( ویج ایوارڈ) کے تحت معاوضہ نہیں ملے گا ، یا بروقت تنخواہ ادا نہ کیے جانے کے موجودہ وقت میں جاری رجحان کے مطابق کئی کئی ماہ تنخواہ نہیں ملے گی تو وہ تندہی سے اپنے فرائض کیسے انجام دے سکے گا ؟ بروقت اپنی ڈیوٹی کیسی یقینی بنائے گا ۔ یہ مسائل اخبارات کا معیار گرانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے گھروں کی تباہی ، مہلک بیماریوں اور اموات کا باعث بھی بنے ہیں ۔ جہاں تک سیکیورٹی کا مسئلہ ہے تو سب سے پہلا مسئلہ تو جاب سیکیورٹی ہے جو کسی ورکر کو حاصل نہیں ہے ۔انسانی زندگی کو درپیش سیکیورٹی کے حالات یقینی طور پر اثر انداز ہوئے ہیں جب کسی کارکن کو ملازمت کا تحفظ نہیں تو وہ اپنے آپ کو کس طرح خطرے میں ڈال کر اخبار کا معیار یقینی بنانے کے لئے اپنی زندگی داﺅ پر لگائے گا ؟ سیکیورٹی کے مسائل دوسری صورت میں اخبارکے معیار پر اس طرح سے بھی اثر انداز ہوتے ہیں کہ کارکنوں کو کنفلیکٹ زون میں کام کرنے کی تربیت سے لے کر وہاں تک رسائی کے وسائل بھی فراہم نہیں کیے جاتے ، اخبارات کی انتظامیہ اخراجات بچانے کے لئے بھی ایسے علاقوں میں نمائندوں کو نہیں بھیجتی جس کی وجہ سے بنیادی تربیت نہ رکھنے یا بہت کم تربیت کے حامل علاقائی نمائندوں کی انفارمیشن پر انحصار کرنا پڑتا ہے ۔کئی کارکن پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران شہید ہوچکے ہیں ۔ایسے حالات بھی پیش آچکے ہیں کہ کارکن کی شہادت پر انتظامیہ نے اسے اپنا نمائندہ ماننے سے بھی ابتدائی طور پر انکار کیا۔ کئی شہداءکی اہل خانہ کو انتظامیہ کی طرف سے ماہانہ وظیفے کا اعلان کرکے خبر چھاپ دی گئی مگر وظیفہ یا تو دیا ہی نہیں گیا یا پھر تھوڑا عرصہ دینے کے بعد بھلا دیا گیا ۔ حادثات اور دھماکوں میں شہید ہونے والے کارکنوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا لیکن آفرین ہے کہ کارکنوں نے ان تمام حالات میں انتظامیہ اور ریاست کی طرف دیکھے بغیر بہتر سے بہتر خبریں فراہم کرنے کی کوشش جاری رکھی ۔ مختلف گروہوں ، گروپوں یہاں تک کہ سیاسی جماعتوں سے بھی کارکنوں کو سیکیورٹی کا مسئلہ درپیش ہے ۔ان حالات میں معیار متاثر اور ریڈر شپ کم نہیں ہوگی تو کیا ہوگا ؟

 ج6 ۔ ڈیجیٹل میڈیا نے بھی اخبارات کی ریڈر شپ کو متاثر کیا ہے ۔لیکن ایک بات بڑی واضح ہے کہ جو لوگ اخبار خرید کر پڑھتے تھے ۔اب انہیں انٹرنیٹ پر اخبار مل جاتا ہے تو اس کا اثر اخبار کی ریڈر شپ سے زیادہ اخبار کی فروخت پر پڑا ہے۔ اس وقت ملک میں کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کراچی میں بھی شائد ہی کوئی اخبار ہوگا جس کا پرنٹنگ آرڈر پچاس ہزار ہوگا۔ لاہور میں اب یہ تعداد بیس ہزار سے سے اوپر نہیں رہی۔یہ اعدادو شمار اخبارمارکیٹ اور اخبارات کے پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ کے ہیں جبکہ انتظامیہ کی طرف سے تو آج بھی ہزاروں اور لاکھ سے اوپر کی تعداد اشاعت کے دعوے کئے جاتے ہیں جو قطعی طور پر درست نہیں ۔ ڈیجیٹل میڈیا نے اخبارات کو اس حد تک متاثر کیا ہے کہ اخبارات کے مالکان اور اخبار فروش یونین نے متفقہ فیصلے کے تحت خبارات کے ڈیجیٹل ایڈیشن ( ویب سائٹ) کی اپ ڈیٹنگ پانچ سے چھ گھنٹے لیٹ کروادی جس سے ان اخبارات کے ڈیجیٹل ایڈیشن کی ریڈر شپ بھی متاثر ہوئی ہے ۔ انٹرنیٹ پر اخبارات کے علاوہ غیر روائتی میڈیا نے بھی اخبارات کی ریڈر شپ اور ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ بہت سی ایسی خبریںجو اخبارات کسی نہ کسی وجہ سے شائع کرنے سے انکار کردیتے ہیں وہ غیر روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر آنے سے قارئین کا اخبار پر اعتماد کم ہو جاتا ہے ۔

ج7 ۔ جی ہاں ۔ قارئین کی بڑی تعداد (جہاں انٹرنیٹ کی بہتر سہولت دستیاب ہے) تیزی سے اس جانب راغب ہورہے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے خبر شائع ہونے پر اب اخبار دکھانے کے بجائے اس کا لنک دوسروں کو بھجوانے کا رحجان بڑھ گیا ہے ۔

ج8۔ جی ہاں ۔ یہ رجحان بڑھ گیا ہے جس نے صحافت، معاشرے اور اخبار سب کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ چینلز پر بیٹھے لوگ جو چاہے بول دیتے ہیں۔ لیکن اخبار میں ایسا نہیں ہوتا ۔اخبار میں اسی تجزیہ کار کو پذیرائی ملتی ہے جس کے ’پلے‘ کچھ ہوتا ہے ۔ اخبار میں مواد کی اشاعت کے لئے دستیاب وقت چینلز کی نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے۔

ج9 ۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے ۔ذاتی مفادات کو پیشے پر ترجیح نہ دیں ۔ پیشہ ورانہ ٹیم رکھیں ۔ اس ٹیم کو قانون کے مطابق جاب سیکیورٹی بروقت اجرت ادا کریں۔ دیانتداری سے کام کریں تو اخبارات کا معیار بھی بہتر ہوگا ریڈر شپ بھی بڑھے گی ۔معاشرے پر اس کے اثرات بھی مثبت ہونگے۔ ریاستی اداروں کو احتساب ، انصاف اور گورننس میں مدد ملے گی ۔

سہیل سانگی، سینئر صحافی، حیدرآباد

ج1۔ جی ہاں اخبارات کی ریڈر شپ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن اس کی نصف درجن وجوہات ہیں۔ ٹی وی چینل اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں۔ بزنس شفٹ ہو گیا ہے ۔ چینلز اور اخبارات کے مالکان و ہی ہیں ان کی توجہ شفٹ ہوئی ہے۔ اخبارات کا معیار وہ نہیں جو ٹی وی چینلز کا مقابلہ کرسکے۔ مجموعی طور پر سو سائٹی میں پڑھنے کا رجحان کم ہوا ہے۔

ج2 ۔ میڈیا کبھی بھی مکمل طور پر غیر جانبدار نہیں ہوتا۔ پیشہ وارانہ طور پر خبروں وغیرہ کو اس طرح رکھا جاتا ہے کہ غیر جانبدار نظر آئیں۔ اخبارات سے زیادہ چینلز جانبدار ہیں۔ جانبدار ہونا یقیناً ریڈر شپ کو متاثر کرتا ہے۔

ج3 ۔ اخبارات وہی خبریںدیتے ہیں جو نیوز چینلز دیتے ہیں۔ جو کچھ رہ جاتا ہے اور پس منظر اخبارات کے لیے رہ جاتا ہے۔ اخبارات وہ کور نہیں کرتے۔ اخبارات میں پیشہ وارانہ اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی کمی ہے۔

ج4 ۔ جب سیاسی جماعتوں نے اپنے اخبارات نکالنا بند کر دیئے تب سے اخبارات کی ترجیح قاری نہیں اشتھار ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ریڈر شپ ہوگی تو اشتھار ات ملیں گے۔ اب ہماری سو سائٹی میں بغیر معیار اور میرٹ کے اشتھار ملنا بھی عام سی بات ہو گئی ہے۔ جس کی وجہ سے قاری کی اہمیت مزید کم ہو گئی ہے۔ نتیجتاً میڈیا کے بزنس ماڈلز بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔

ج5 ۔ مالی اور سیکورٹی کے مسائل اخبارات کے معیار کو متاثر کرتے ہیں۔ اچھے صحافی جن کو تحفظ بھی حاصل ہو اچھا اخبار نکال سکتے ہیں۔ اچھے صحافیوں کی مالی ضروریات کا اتنا ہی خیال رکھنا پڑیگا۔

ج6 اور7 ۔ ڈیجیٹل میڈیا نے ابھی اتنا متا ثر نہیں کیا تا ہم یہ عمل جاری ہے۔ آئندہ ایک دو سال میں خاصے قاری پرنٹ سے آن لائن شفٹ ہو سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ غیررسمی سوشل میڈیا نے متاثر کیا ہے ۔ پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا خود ابھی ابتدائی شکل اور مرحلے میں ہے۔

ج8 ۔ اکثر چینل اور اخبارات کے مالکان ایک ہی ہیں اور ان کی توجہ شفٹ ہوئی ہے۔کیونکہ بزنس شفٹ ہو گیا ہے۔

ج9 ۔ اخبارات میں پیشہ وارانہ، تربیت یافتہ اور نئے ویژن والے افراد کو رکھنا پڑے گا۔ جو لکھنے کے نئے فارمیٹ دے سکیں۔ خود موضوعات کی تبدیلی اور ان کی ٹریٹمنٹ ، گہرائی تک جانا وغیرہ کے ذریعے ریڈر شپ کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔

ناصر حسین، سینئر صحافی، پشاور

ج1 ۔ اس سے مکمل اتفاق ہے۔

ج2 ۔ کارپوریٹ کلچر میں اخبارات غیر جانبدار نہیں رہے۔ صحافت اب مشن یا کسی کاز کی بجائے بزنس بن چکی ہے ۔ اس صورتحال میں ریڈر شپ لا محالہ متاثر ہو رہی ہے۔

ج3۔ بریکنگ نیوز کے طوفان نے صحافتی اقدار کو پامال کیا ہے۔ کسی بھی چینل نے پہلے جیسی بھی خبر چلادی ناظرین کی ایک بڑی اکثریت اس پر یقین کر لیتی ہے۔ اگلے روز اخبار میں تفصیل اور جتنی سچائی کے ساتھ خبر شائع کی جائے۔ بہت کم لوگ اخبار کی خبر کو درست مانتے ہیں۔

ج4 ۔ اخبار کے لیے قاری اور اشتھار کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کسی بھی اخبار کی پہلی ترجیح اشتھارات ہیں کیونکہ اشتھار کے بغیر اخبار کے معیار کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ۔ جبکہ قاری کو درست اور حقائق پر مبنی معلومات دینا اخبار کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ لہذا ان دونوں کو بیلنس رکھنے والے اخبارات ہی کامیاب قرار پاتے ہیں۔

ج5۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ فیکٹر ریڈر شپ کو متاثر کر رہا ہے۔

ج6 ۔ نئی نسل ڈیجیٹل میڈیا کی طرف بھرپور طور راغب ہے۔ پاکستان کی آدھی سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ میرے خیال میں اخبارات کو وقت کے ساتھ اپنے اسٹائل کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

ج7 ۔ جی ہاں۔ وقت اور وسائل کی بچت اس کی بڑی وجہ ہے۔

ج8 ۔ افسوس کا اظہار ہی کیا جاسکتا ہے۔ کراس میڈیا کی بدولت مالکان کی اکثریت چینلز پر وسائل زیادہ صرف کرتی ہے۔ جس سے براہ راست اخبار کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ اور سنجیدہ ریڈر شپ معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر تی۔

ج9 ۔ اس کے لیے اخبار کو خصوصی تجزیوں، تبصروں، دن بھر چینلز پر چلنے والی خبر کو ایک نئے زاویئے سے قارئین تک پہنچانا، فالواپ پر توجہ دینا چاہیے اکثر چینلز ملکی اور عالمی سیاست پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ اور بہت کم وقت علاقائی مسائل اور ایونٹس کو دیتے ہیں۔ لہذا اخبارات اپنے شہر، دیہات اور اردگرد کے علاقوں پر فوکس کریں تو ریڈر شپ کو متوجہ کیا جاسکتا ہے۔

شبیر میر، سینئر صحافی، گلگت

ج1 ۔ جی ہاں پاکستان میں اخبارات کی ریڈر شپ میں کمی واقع ہوگئی ہے۔

ج2۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اخبارات غیر جانبدار نہیں رہے۔ یہ مختلف قسم کے دباﺅ کا شکار رہتے ہیں۔ اور ان کی رپورٹنگ اس بات کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کا ان پر اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے۔

ج3 ۔ نیوز چینلز نے اخبارات کی ریڈر شپ پر بہت اثر ڈالا ہے۔ کیونکہ نیوز چینلز سے اخبار کو فوری خبر پہنچ جاتی ہے۔ اور اگلے روز اخبارات میں چھپنے تک خبر پرانی ہو جاتی ہے۔

ج4 ۔ اتفاق ہے۔

ج5 ۔ صحافی کم تنخواہوں اور مالی پر یشانیوں کی وجہ سے پوری طرح اپنے کام پر توجہ مرکوز نہیں کر پاتے ہیں۔ اسی طرح سیکورٹی خدشات کے پیش نظر بھی صحافی بہت زیادہ احتیاط اور محدود ہوکر کام کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے کام کا معیار گر جاتا ہے۔

ج6 ۔ ڈیجیٹل میڈیا کی وجہ سے خبروں کی ترسیل کا کام تیز ہوگیا ہے۔ جس کی وجہ سے آن لائن نیوز سائٹس کے وزیٹر یا صارف بڑھ گئے ہیں۔ نتیجتاً اشتھار دینے والی کمپنیاں ان کو ترجیح دیتی ہیں۔ لہذا اخبارات میں اشتھار کم ہو گئے ہیں۔

ج7 ۔ موبائل اور کمپیوٹر ز وغیرہ کی وجہ سے قارئین کی ایک بہت بڑی تعداد اب اخبارات کی نسبت آن لائن نیوز پڑھنے کو ترجیح دے رہی ہے۔

ج8 ۔ مالکان کی یقینا توجہ کے مرکز اب چینل ہو گئے ہیں۔ جن میں ان کے لیے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے مواقع موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ا خبارات میں موجود ملازمین کو تنخواہ ٹی وی چینلز کے ملازمین کی نسبت کم دی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اخبارات زوال پذیر ہیں۔

ج9 ۔ جب تک اخبار میں چھپنے والی خبریں اور آرٹیکلز وغیرہ کا معیار بہتر نہیں بنایا جاتا اور غیر جانبداری کو یقینی نہیں بنایا جاتا ہے ۔ تب تک اخبارات کا دوبارہ قارئین کی توجہ کا مرکز بننا ممکن نہیں۔

جاوید نور، سینئر صحافی ، اسلام آباد

ج1۔ پاکستان میں اخبار بینی میں بالکل کمی آئی ہے جس کی متعدد وجوہات ہیں۔اخبار بینی میں کمی کے سبب ہی قومی اور علاقائی اخبارات کی اشاعت میں تیزی سے کمی آئی ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اخبارات خرید کر پڑھنے کے رجحان میں بھی کمی آئی ہے اور لوگ اس بات کو ترجیح دینے لگے ہیں کہ آن لائن اخبارات کا مطالعہ کر لیا جائے مگر انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کے پاس اخبار بینی کے علاوہ معلومات کے حصول کے دیگر ذرائع بھی دستیاب ہیں اور وہ انہیں ترجیح دینے لگے ہیں جن میں خبروں کے فوری حصول کے لیے واٹس ایپ اور ٹویٹر شامل ہیں۔

 ج2 ۔ آج انٹرنیٹ کا دور ہے جس میں خبروں کے حصول کے کئی ذرائع دستیاب ہیں مگر اطلاع ملنا اور اس کا مستند ہونا دو الگ باتیں ہیں۔ قارئین اخبارات کو اس لئے ترجیح دیتے ہیں کہ اس میں شامل خبریں مستند ہوتی ہیں اور ان کی حصول واشاعت میں غیر جانبداری برتی جاتی ہے مگر اب اس رجحان میں تبدیلی آتی دکھائی دے رہی ہے اور بعض خبروں میں اخبارات کا جھکاؤ دکھائی دیتا ہے یا خبر توڑ مروڑ کر پیش کی جاتی ہے یا پھر ایک فریق کا موقف پوری طرح شامل نہیں کیا جاتا اور اس موقف کے حصول میں پوری مستعدی نہیں دکھائی جاتی۔ ماضی میں بھی ایسے اخبارات شائع ہوتے رہے ہیں جو کسی خاص نقطہ نظر کی نمائندگی کرتے تھے مگر انہیں قبول عام حاصل نہیں ہوسکا کیونکہ عوام مستند و غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کو پسند کرتے ہیں جن میں خبر کا کوئی پہلو پوشیدہ یا تشنہ نہ ہو اور جہاں ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے وہ ایسے اخبارات سے بددل ہو جاتے ہیں۔غیر جانبداری نہ برتنے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ جن میں سرخی میں من پسند موقف کو زیادہ واضح کرنا،خبر کو سنگل کالم لگانا یا بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، اندرونی صفحات میں لگا کر اثر کم کر دینا یا ایک فریق کے موقف کو زیادہ اور دوسرے کو کم جگہ دینا وغیرہ شامل ہے۔بعض اخبارات کے غیرجانبدار نہ ہونے کی وجوہات میں مفادات کا حصول دباوؤیا دیگر عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں۔

 ج3۔ دنیا بھر میں نیوز چینلز سمیت ابلاغ کے جدید ذرائع نے اخبارات کی اشاعت اورریڈرشپ کو متاثر کیا ہے۔ہر شخص بروقت خبر جاننا چاہتا ہے۔چینل واقعہ رونما ہوتا ہوا دکھاتے ہیں جبکہ اخبارات میں وہ خبر اگلی روز شائع ہوتی ہے۔ریڈرشپ کی کمی کا ایک سبب نیوز چینلز ہیں مگر یہ واحد وجہ نہیں ہے۔کیونکہ سوشل میڈیا نے تو نیوز چینلز دیکھنے کے رجحان کو بھی محدود کردیا ہے۔

 ج4۔ ماضی میں صحافت ایک مشن تھا جس کے لیے صحافیوں اور اخباری مالکان نے قربانیاں دیں مگر اب یہ مکمل طور پر کاروبار بن چکا ہے۔اسی لیے اکثر اہم خبروں کی جگہ اشتہارات لے لیتے ہیں۔

ج5 ۔ صحافیوں کی تنخواہوں میں کٹوتی، مہنگائی، اخبارات سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو ویج بورڈ ایوارڈ نہ ملنا،کئی کئی ماہ تنخواہوں سے محرومی، اداروں میں چھانٹیاں ، مالکان کے مفادات سے متصادم خبروں کی اشاعت روکنا ،مختلف حلقوں کا دباوؤاور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احساس عدم تحفظ کے سبب بھی صحافیوں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور اس کا براہ راست اثر ریڈرشپ کی کمی پر منتج ہوتا ہے۔

 ج6۔ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا نے پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں اخبارات کی ریڈرشپ کو متاثر کیا ہے۔

ج7۔ کاغذ پر چھپنے والے اخبارات کی بجائے قارئین کی آن لائن ایڈیشن پر منتقلی عالمی رجحان ہے جو دنیا میں بڑے بڑے اخبارات کی بندش کا سبب بنا ہے۔ پاکستان میں آن لائن اخبارات مفت دستیاب ہیں جب کہ بڑھتے معاشی مسائل کے سبب بھی لوگ اخبار خرید کر پڑھنا ترک کرتے جارہے ہیں۔بزرگوں کی نسل اب بھی اخبارات خرید کر پڑھتی ہے مگر جلد ہی دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اخبارات کی کاغذ پر اشاعت ختم ہوجائے گی اور صرف آن لائن ایڈیشنز ہی دستیاب ہوں گے۔

ج8۔ یہ بات بالکل درست ہے۔

 ج9۔ تحریر کی افادیت کبھی ختم نہیں ہوگی۔اخبارات اطلاعات تک رسائی کا اہم ذریعہ ہیں۔صحافیوں کے معاشی حالات کی بہتری،مفادات کا تحفظ،بہتر اجرت، معاشی تحفظ ،غیر جانبداری کو یقینی بنانے، ہر طرح کے دباؤاور مفادات سے آزادی دے کر اخبار بینی کی شرح بڑھائی جا سکتی ہے۔

_____________________________________________

محمد عاطف شیخ 20 سال سے صحافت کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ آپ پاکستان کے صف اول کے قومی و  علاقائی اخبارات اور میگزینز میں سماجی اور پائیدار انسانی ترقی کے موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔ متعدد قومی و صحافتی ایوارڈز جیت چکے ہیں۔ آپ کو اعزاز حاصل ہے کہ آپ پاکستان میں ترقیاتی صحافت کے بانیوں میں سے ہیں۔

3 تبصرے “قارئین کو ترستا ابلاغ عام کا سب سے پرانا ذریعہ “اخبار”، ماہرین ابلاغیات کی آراء پر مشتمل ایک تحریر

  1. بہت اُمدا ، ہم سب کو مل کر اس کو زادہ سے زادہ شیر کرنا چاہیے تاکے عوام کو بھی اس چیز کا علم ہو-

اپنا تبصرہ بھیجیں