بھارت نے یک طرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کرکے پاکستان پر آبی جنگ مسلط کر دی اور پاکستان آنے والے دریائے چناب کے پانی کو بڑے پیمانے پر روک کر اسے خشک کرناشروع کردیا ہے۔
اس کے علاوہ بھارت نے دریائے جہلم پر کشن گنگا منصوبے کے ذریعے پانی کا اخراج کم کرنے کی تیاری بھی شروع کردی ہے۔
سابق پاکستان انڈس واٹر کمشنر کا کہنا ہے کہ دونوں اقدامات نا صرف سندھ طاس معاہدے کی روح کے منافی ہیں بلکہ پاکستان کی زرعی معیشت، آبی تحفظ اور قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بھی بن چکے ہیں، صورت حال سنگین ہورہی ہےاور صرف 2 دنوں میں دریائے چناب میں پانی کی آمد 40 ہزار 900 کیو سک سے کم ہو کر صرف 5 ہزار 300 کیوسک رہ گئی۔
بھارت چناب بیسن میں پکل دل (1,000 میگاواٹ)، کیرو (624 میگاواٹ)، کوار (540 میگاواٹ) سمیت دیگر منصوبے لگا رہا ہے جو 2027-28 تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔
ماہرین کہتے ہیں بھارتی اقدامات ’واٹر اسٹرائیک‘ ہیں جوسرجیکل سٹرائیک سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
ماہرین کایہ بھی کہنا ہےکہ بھارت کے پاس دریاؤں کا پانی روکنے کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ پاکستانی دریاؤں کاپانی آخرکہاں گیا؟ بھارت نے یہ پانی روک کرکہیں اسے اپنے کسانوں کے لیے استعمال کرنا تو شروع نہیں کردیا۔
بھارت کی طرف سے گزشتہ 3 سالوں کے دوران دونوں ملکوں کے انڈس واٹر کمشنرز کا اجلاس نہ ہونے دینا اور پاکستان کو اس عرصے کے دوران بھارت جا کر بھارتی منصوبوں کا معائنہ کرنے کا موقع نہ ملنا، پاکستان کے خدشات کومزید تقویت دے رہا ہے۔